Monday, April 28, 2025
اردو

Crime

غیرمُلکی مولانا کی تصویر کو کانگریس لیڈر امجد علی سے جوڑ کر سوشل میڈیا پر کیاجارہاہے شیئر

banner_image

آسام کے کانگریس لیڈر امجد علی سیب کی پیٹی میں ہتھیار اور گولیوں کے ساتھ حراست میں لیاگیا ہے۔کافروں کو مارنے کی تیاری کررہا تھا۔لیکن پولس نے اسے پکڑ لیا۔

Viral Image From Facebook

سوشل میڈیا پر ان دنوں دوتصاویر خوب گردش کررہی ہیں۔پہلی تصویر میں سیب کی پیٹی میں بم اور گولیاں نظر آرہی ہیں اور دوسری تصویر میں ایک مولانا کو کچھ پولس اہلکار ہتھکڑی لگا کر ارد گرد کھڑے ہوئے ہیں۔یوزر کا دعویٰ ہے کہ تصویر میں نظر آرہا شخص آسام کے کانگریس لیڈر امجد علی ہیں۔جو ہتھیار کے ساتھ گرفتار کئے گئے ہیں۔درج ذیل میں وائرل پوسٹ کے آرکائیو لنک موجود ہیں۔

انل کھٹک فیس بک پوسٹ کا آرکائیو لنک۔

سیوہندوتوا نامی پوسٹ کا آرکائیو لنک۔

مرتنجے کمار کے پوسٹ کا آرکائیو لنک۔

https://www.facebook.com/monu.rewari.77/posts/419882399005344

سوربھ شریواستو کے ٹویٹ کا آرکائیو لنک۔

https://twitter.com/Nazir_Mudassar1/status/1323289896375771148

Fact check / Verification

وائرل تصاویر کی حقائق جاننےکےلئے ہم نے ہتھیار والی تصویر کو کچھ ٹولس کی مدد سے گوگل پر سرچ کیا۔جہاں ہمیں جموں کشمیر پولس کےآفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ ملا اور فری کشمیر نیوز نامی ویب سائٹ پر اس حوالے سے شائع 29اکتوبر2018 کی ایک خبر ملی۔جس کے مطابق سیب کی پیٹی میں اسلحے کی تصویر شرینگر کی ہے۔جہاں ہندوستانی فوج نے 3ملیٹنٹ کو گرفتار کیا اور اس کے ساتھ اسلحے بھی ضبط کئےتھے۔

مذکورہ جانکاری سے ایک تصویر کے بارے واضح ہوچکا ہےکہ شرینگر کی ہے۔پھر ہم نے امیج پر غور کیاتو مولانا کے ارد گرد موجود پولس اہلکار بلو ڈریس پہنے ہوئے تھے۔جوکہ بھارت کی نہیں ہے بلکہ بنگلہ دیش کی ہے۔تب ہم نے بنگلہ دیش سے جوڑ کر کچھ کیورڈ سرچ کئے ۔اس دوران ہمیں ای بنگلہ نامی 6مئی 2018 کا ایک بلوگ ملا ۔جس میں وائرل تصویر کے ساتھ بنگلہ لکھا تھا۔گوگل ٹرانسلیٹ کرنے پر پتاچلاکہ مدرسہ کے استاذ کو عصمت ریزی کے الزام میں گرفتار کیاگیاہے۔

وہیں ہم نے دیگر کیورڈ سرچ کیا۔اس دوران بنگلہ دیشی نیوز ویب سائٹ پر پانچ مئی 2018کی خبریں ملیں۔جس کے مطابق وائرل تصویر میں نظر آرہا شخص 28سالہ مبارک حسین نامی مدرسہ کے استاد ہیں۔جنہوں نے 13سالہ بچی کو جنسی طور پر حراساں کیا تھا۔جس کے بعد متاثرہ نے خودکشی کرلی تھی۔مولانا کو 5مئی 2018 کو گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔

وہیں سرچ کے دوران ہمیں دی ڈیلی اسٹار نامی انگلش نیوز ویب سائٹ پر 6مئی 2018 کی ایک خبر ملی۔جس کے مطابق13سالہ سہاگی بیگم نامی بچی کے ساتھ مولانا نےجنسی استحصال کیاتھا۔جس کے بعد اس نے خود کشی کرلی تھی۔

Conclusion

نیوزچیکر کی تحقیقات میں پتا چلاکہ وائرل تصویر میں نظر آرہا شخص بنگلہ دیشی مولانا ہے۔جسے نابالغ بچی سے عصمت ریزی کے الزام میں گرفتا ر کیاگیا ہے۔اس تصویر کا کانگریس لیڈر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔وہیں دوسری ہتھیار والی تصویر جموں کشمیر کے شرینگر کی ہے۔جس کو فوجیوں نے ملیٹینٹ سے2سال پہلے ضبط کیاتھا۔

Result:False

Our Sources

ٖFreekashmir:https://freepresskashmir.news/2018/10/29/3-militants-arrested-after-shootout-in-srinagar-outskirts-arms-and-ammunition-recovered/

Tweet:https://twitter.com/JmuKmrPolice/status/1056879683877318656

Blogs:https://eaibangla.blogspot.com/2018/05/blog-post_14.html

Dailyjonomot:https://dailyjonomot.com/2018/05/05/%E0%A6%AE%E0%A7%9F%E0%A6%AE%E0%A6%A8%E0%A6%B8%E0%A6%BF%E0%A6%82%E0%A6%B9%E0%A7%87-%E0%A6%AF%E0%A7%8C%E0%A6%A8-%E0%A6%B9%E0%A7%9F%E0%A6%B0%E0%A6%BE%E0%A6%A8%E0%A6%BF%E0%A6%B0-%E0%A6%98%E0%A6%9F/

BD24live:https://www.bd24live.com/bangla/article/1525525503/164277/%e0%a6%ae%e0%a6%95%e0%a7%8d%e0%a6%a4%e0%a6%ac%e0%a7%87%e0%a6%93-%e0%a6%b6%e0%a7%87%e0%a6%b7-%e0%a6%b0%e0%a6%95%e0%a7%8d%e0%a6%b7%e0%a6%be-%e0%a6%b9%e0%a6%b2%e0%a7%8b-%e0%a6%a8%e0%a6%be-%e0%a6%ae

kalerkantho:https://www.kalerkantho.com/online/country-news/2018/05/05/632796

TheDailyStar:https://www.thedailystar.net/city/harassed-madrasa-teacher-schoolgirl-commits-suicide-1572112

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

 9999499044

image
اگر آپ کسی دعوے کی جانچ کرنا چاہتے ہیں، رائے دینا چاہتے ہیں یا شکایت درج کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں واٹس ایپ کریں +91-9999499044 یا ہمیں ای میل کریں checkthis@newschecker.in​. آپ بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
About Us

Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check

Contact Us: checkthis@newschecker.in

17,946

Fact checks done

FOLLOW US
imageimageimageimageimageimageimage
cookie

ہماری ویب سائٹ کوکیز استعمال کرتی ہے

ہم کوکیز اور مماثل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مواد کو شخصی بنایا جا سکے، اشتہار کو ترتیب دی جا سکے، اور بہتر تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ 'ٹھیک ہے' پر کلک کرکے یا کوکی ترجیحات میں ایک اختیار کو آن کرنے سے، آپ اس پر متفق ہوتے ہیں، جیسا کہ ہماری کوکی پالیسی میں وضاحت کے طور پر ہوا ہے۔