Friday, March 21, 2025
اردو

Fact Check

چین اور تائیوان کے حالیہ کشیدگی کی نہیں ہے یہ وائرل تصویر

banner_image

سوشل میڈیا پر سمندری جہازوں کی ایک تصویر کو حالیہ چین اور تائیوان کشیدگی سے منسوب کرکے شیئر کیا جارہا ہے۔ تصویر سے متعلق ایک ٹویٹر صارف کا دعویٰ ہے کہ “چین نے آبنائے تائیوان کے مشرق میں با قاعدگی سے فوجی مشقوں کا اعلان کردیا ہے”۔

چین اور تائیوان کے حالیہ کشیدگی کی نہیں ہے یہ وائرل تصویر
Courtesy: Twitter @BeenishBaloch8

پاکستان کی معروف نیوز ویب سائٹ جنگ نے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر اس تصویر کو”چین کا آبنائے تائیوان میں فوجی مشقیں باقاعدگی سے کرنے کا اعلان” کیپشن کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیلی انتخاب نامی ٹویٹر ہینڈل سے بھی مذکورہ دعوے کے ساتھ تصویر شیئر کی گئی ہے۔

Courtesy: Twitter @jang_akhbar

Fact Check/ Verification

بحریہ جہازوں والی وائرل تصویر کے ساتھ کیے گئے دعوے سے متعلق ہم نے کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں آج تک نیوز اور ڈی دبلو اردو پر شائع رپورٹس ملیں، جن کے مطابق تائیوان کے ارد گرد چینی طیارے اور بحری جہازوں کے متعد بیڑے جنگی مشقیں کررہے ہیں۔ چین اپنے ملیٹری ڈرل کے دوران تائیوان کو چاروں جانب سے گھیر رہا ہے۔ چین کی جانب سے ان جنگی مشقوں میں ڈرون بھی اتار دیا گیا ہے۔ اب ان رپورٹس سے واضح ہوا کہ تصویر کے ساتھ کیا گیا دعویٰ سچ ہے۔

پھر ہم نے تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں امریکن بروڈ کاسٹ نٹورک (اے بی سی نیوز) پر شائع ایک جولائی 2019 کی رپورٹ ملی۔ جس میں وہی تصویر موجود تھی جسے ان دنوں حالیہ چین اور تائیوان کشیدگی سے منسوب کرکے شیئر کیا جارہا ہے۔ تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق 12 اپریل 2018 کو یہ فائل فوٹو، ژنہوا نیوز ایجنسی نے شیئر کی تھی۔ جس میں اس تصویر کو لیاؤننگ طیارہ کریئر، نیوی کے فریگیٹس اور سمرین کے ساتھ بحیره جنوبی چین میں مشق کرنے کا بتایا گیا ہے۔

Courtesy: abcnews

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ پر 2 نومبر 2018 کی ایک رپورٹ میں بھی مذکورہ تصویرخبرکے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ جس میں ایسوسی ایٹ پریس کے حوالے سے لکھا ہے کہ اپریل ماہ میں جنوبی چین کے سمندر میں بڑے پیمانے پر پی ایل اے نیوی نے مشقیں کی تھیں۔ مذکورہ رپورٹ میں کہیں بھی تائیوان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

Courtesy:South China Morning Post

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ وائرل تصویر ساوتھ چین کی ہے اور کم از کم 4 سال پرانی ہے۔ تاہم تصویر کے ساتھ کیا جارہا دعویٰ صحیح اور تازہ ہے۔

Result: Missing context

Our Sources

Media report Published by DWUrdu on 06 Aug 2022
Media report Published by ABCNews on 01 July 2019
Media report Published by South China Morning Post on 02 Nov 2018

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044

image
اگر آپ کسی دعوے کی جانچ کرنا چاہتے ہیں، رائے دینا چاہتے ہیں یا شکایت درج کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں واٹس ایپ کریں +91-9999499044 یا ہمیں ای میل کریں checkthis@newschecker.in​. آپ بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
About Us

Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check

Contact Us: checkthis@newschecker.in

17,500

Fact checks done

FOLLOW US
imageimageimageimageimageimageimage
cookie

ہماری ویب سائٹ کوکیز استعمال کرتی ہے

ہم کوکیز اور مماثل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مواد کو شخصی بنایا جا سکے، اشتہار کو ترتیب دی جا سکے، اور بہتر تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ 'ٹھیک ہے' پر کلک کرکے یا کوکی ترجیحات میں ایک اختیار کو آن کرنے سے، آپ اس پر متفق ہوتے ہیں، جیسا کہ ہماری کوکی پالیسی میں وضاحت کے طور پر ہوا ہے۔