Thursday, April 24, 2025
اردو

Fact Check

جموں کشمیر کی نہیں ہے سوشل میڈیا پر وائرل پاکستان سے موازنے کی یہ تصویر

banner_image

سوشل میڈیا پر دو تصاویر پر مشتمل ایک کولاج شیئر کیا جا رہا ہے۔ صارف کا دعویٰ ہے کہ پہلی تصویر جموں کشمیر کی ہے اور دوسری پاکستان کی ہے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کی نہیں ہے سوشل میڈیا پر وائرل پہلی تصویر
Courtesy:Twitter@Wasim_Wazir

پچیس مئی 2022 کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کی جانب سے ‘حقیقی آزادی’ لانگ مارچ کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق لانگ مارچ کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سیکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور ان پر لاٹھی بھی برسائی گئی، مظاہرے کے دوران ہلاکت کی بھی خبر ہے۔ اسی کے پیش نظر دو تصویروں پر مشتمل ایک کولاج سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ صارفین کا دعویٰ ہے کہ پہلی تصویر جس میں پولس اہلکار لڑکے اور لڑکیوں پر لاٹھی برسا رہے ہیں وہ جموں کشمیر کی ہے، جبکہ دوسری تصویر پاکستان کی ہے۔

Fact Check/Verification

سوشل میڈیا پر پہلی تصویر کو جموں کشمیر کا بتا کر شیئر کیا گیا ہے۔ ہم نے جب تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں این ڈی ٹی وی، نیوز18 اور وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر شائع 16 اور 18 دسمبر 2019 کی خبریں ملیں۔ جس کے مطابق کولاج کی اوپر والی تصویر کو دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباء و طالبات پر پولس تشدد کا بتایا گیا ہے۔

Courtesy: News18

دراصل اس وقت بھارت میں شہریت ترمیمی قانوں (سی اے اے و این آر سی) کے خلاف ملک بھر میں مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ یہ مظاہرہ اس وقت شدت اختیار کر گیا، جب پولیس کی جانب سے نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کو زد و کوب کیا گیا۔ جس کے بعد اس تصویر نے سوشل میڈیا پر خوب سرخیاں بٹوری تھیں۔ لیکن اس تصویر کو جموں کشمیر کا بتاکر شیئر کرنا سراسر غلط ہے۔

ہم نے جب دوسری تصویر کو کروپ کرکے ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں الجزیرہ پر شائع 25 مئی 2022 کی رپورٹ ملی۔ جس میں گاڑی پر حملے والی تصویر کو لاہور میں پولس کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کو لے جانے والی گاڑی پر کئے گئے حملے کا بتایا گیا ہے۔ یہی تصویر ہمیں پاکستان کی دنیا نیوز کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر بھی ملی۔

Courtesy:Al Jazeera

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ سوشل میڈیا پر وائرل کولاج میں جس تصویر کو جموں کشمیر کا بتایا جا رہا ہے وہ دراصل نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولس تشدد کی ہے اور دسمبر 2019 کی ہے۔ بتادوں کہ یہ طلبہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

Result: Misleading Content/ Partly False

Our Sources

Report Published by NDTV on 18/12/ 2019
Report Published by News18 on 16/12 2019
Report Published by Al Jazeera on25/5/2022

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044

image
اگر آپ کسی دعوے کی جانچ کرنا چاہتے ہیں، رائے دینا چاہتے ہیں یا شکایت درج کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں واٹس ایپ کریں +91-9999499044 یا ہمیں ای میل کریں checkthis@newschecker.in​. آپ بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
About Us

Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check

Contact Us: checkthis@newschecker.in

17,898

Fact checks done

FOLLOW US
imageimageimageimageimageimageimage
cookie

ہماری ویب سائٹ کوکیز استعمال کرتی ہے

ہم کوکیز اور مماثل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مواد کو شخصی بنایا جا سکے، اشتہار کو ترتیب دی جا سکے، اور بہتر تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ 'ٹھیک ہے' پر کلک کرکے یا کوکی ترجیحات میں ایک اختیار کو آن کرنے سے، آپ اس پر متفق ہوتے ہیں، جیسا کہ ہماری کوکی پالیسی میں وضاحت کے طور پر ہوا ہے۔