Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check
Contact Us: checkthis@newschecker.in
Fact Check
الجولانی حکومت کے حامی کی جانب سے علوی بچوں کو ذبح کرنے کی دھمکی دینے کی ویڈیو۔
یہ ویڈیو 2014 کی ہے، جس میں ایک لبنانی شخص مزاقیہ طور پر شامی بچوں کو ڈرا رہا تھا۔
گزشتہ ایک ہفتے سے شام کی الجولانی حکومت کی سیکیورٹی فورسز و بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپ جاری تھی۔ یہ جھڑپ تب شروع ہوئی جب بروز بدھ بشار الاسد کے مسلح حامیوں نے صوبہ لاطاکیہ میں نئی حکومت کی چوکیوں پر حملہ کیا۔ جس کے بعد الجولانی حکومت کی جانب سے میلیٹری آپریشن شروع کیا گیا۔ دی گارجین کی ایک رپورٹ میں وار مانیٹر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان جھڑپوں میں تقریباً 1000 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ حالانکہ 10 مارچ کو وزارت دفاع کے ترجمان حسن عبدالغنی کی جانب سے میلیٹری آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اسی تناظر میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی، جس میں 3 خوفزدہ بچے روتے بلکتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور کیمرے کے پیچھے سے ایک شخص چاقو دکھا کر انہیں دھمکاتے ہوئے سنائی دے رہا ہے۔ حالانکی اس کی جانب سے بولی جا رہی زبان مختلف ہے۔
اس ویڈیو کے ساتھ صارفین کا دعویٰ ہے کہ “الجولانی کا ایک دہشت گرد 3 علوی بچوں کو بھائیوں کا انتخاب دیتا ہے، میں تم میں سے پہلے کس کو ذبح کرو، ان خبیثوں نے تفلان مسلم کا یاد تازہ کردیا”۔
شیئر کی گئی ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے ویڈیو کو کیفریم میں تقسیم کیا اور اس کے ایک فریم کو گوگل لینس پر سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں الجدید نیوز نامی آفیشل یوٹیوب چینل پر 12 ستمبر 2014 کو اپلوڈ شدہ ہوبہو ویڈیو ملی۔ ویڈیو کے ساتھ لکھا کیپشن عربی زبان میں تھا، جس کا ترجمہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کیپشن میں لکھا ہے “3 دہشت زدہ شامی بچے… ہم سب سے پہلے کس کو ذبح کریں؟”۔
مزید سرچ کے دوران ہمیں الآن ٹی وی نامی یوٹیوب چینل پر بھی یہی ویڈیو موصول ہوئی۔ اس کے ساتھ بھی عربی زبان میں کیپشن دیا گیا تھا، جس کا ترجمہ ہے “ہم سب سے پہلے کس کو ذبح کرنا چاہتے ہیں؟ ویڈیو میں ایک نوجوان آئی ایس آئی ایس کے انداز میں بچوں کو ذبح کرنے کی دھمکی دے رہا ہے”۔
تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے عربی میں کچھ کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں 13 ستمبر 2014 کو الجزیرہ کی ویب سائٹ پر اسی ویڈیو سے متعلق شائع شدہ ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق “لبنانی سکیورٹی فورسز نے شامی بچوں کو ذبح کرنے کی دھمکی دینے والے نوجوان کو گرفتار کر لیا”۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بچوں کی ماں اپنے تینوں بچوں کو اس شخص کی نگرانی میں چھوڑ کر بازار گئی تھی۔ ویڈیو میں وہ شخص مزاقیہ طور پر بچوں کو ڈرا رہا تھا، یہ کوئی سنگین دھمکی نہیں تھی۔
اس کے علاوہ ہمیں عربی سی این این کی ویب سائٹ پر بھی اس حوالے سے 14 ستمبر 2014 کو شائع شدہ ایک رپورٹ فراہم ہوئی۔ اس رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ بچوں کو ذبح کرنے کی دھمکی دینے والی ویڈیو معاملے میں لبنانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے عبا کے جنوبی شہر سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ لبنانی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بچوں کی والدہ، جو کہ ایک شامی خاتون ہے، کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ بعد میں اسے رہا کر دیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ دھمکی دینے والا لبنانی شخص بچوں کی والدہ کی غیرموجودگی میں ان کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔ اس دوران بچوں نے گھر کی بالکنی سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اس شخص نے انہیں دیکھ لیا اور انہیں دوبارہ ایسا کرنے سے باز رکھنے کے لئے دھمکی دے ڈالی۔
اس طرح نیوز چیکر کی تحقیقات سے واضح ہوا کہ الجولانی حکومت کے حامی کی جانب سے علوی بچوں کو خوفزدہ کرنے کا بتاکر شیئر کی گئی ویڈیو 2014 کی ہے۔ اس کا شام میں جاری حالیہ جھڑپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Sources
Video reports published by YouTube channel Al Aan TV and AL Jadeed News on 12/ 14 Sept 2014
Reports published by Aljazeera and Arabic CNN on Sept 2014