Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check
Contact Us: checkthis@newschecker.in
Fact Check
سوشل میڈیا پر سمندری جہازوں کی ایک تصویر کو حالیہ چین اور تائیوان کشیدگی سے منسوب کرکے شیئر کیا جارہا ہے۔ تصویر سے متعلق ایک ٹویٹر صارف کا دعویٰ ہے کہ “چین نے آبنائے تائیوان کے مشرق میں با قاعدگی سے فوجی مشقوں کا اعلان کردیا ہے”۔

پاکستان کی معروف نیوز ویب سائٹ جنگ نے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر اس تصویر کو”چین کا آبنائے تائیوان میں فوجی مشقیں باقاعدگی سے کرنے کا اعلان” کیپشن کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیلی انتخاب نامی ٹویٹر ہینڈل سے بھی مذکورہ دعوے کے ساتھ تصویر شیئر کی گئی ہے۔

بحریہ جہازوں والی وائرل تصویر کے ساتھ کیے گئے دعوے سے متعلق ہم نے کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں آج تک نیوز اور ڈی دبلو اردو پر شائع رپورٹس ملیں، جن کے مطابق تائیوان کے ارد گرد چینی طیارے اور بحری جہازوں کے متعد بیڑے جنگی مشقیں کررہے ہیں۔ چین اپنے ملیٹری ڈرل کے دوران تائیوان کو چاروں جانب سے گھیر رہا ہے۔ چین کی جانب سے ان جنگی مشقوں میں ڈرون بھی اتار دیا گیا ہے۔ اب ان رپورٹس سے واضح ہوا کہ تصویر کے ساتھ کیا گیا دعویٰ سچ ہے۔
پھر ہم نے تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں امریکن بروڈ کاسٹ نٹورک (اے بی سی نیوز) پر شائع ایک جولائی 2019 کی رپورٹ ملی۔ جس میں وہی تصویر موجود تھی جسے ان دنوں حالیہ چین اور تائیوان کشیدگی سے منسوب کرکے شیئر کیا جارہا ہے۔ تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق 12 اپریل 2018 کو یہ فائل فوٹو، ژنہوا نیوز ایجنسی نے شیئر کی تھی۔ جس میں اس تصویر کو لیاؤننگ طیارہ کریئر، نیوی کے فریگیٹس اور سمرین کے ساتھ بحیره جنوبی چین میں مشق کرنے کا بتایا گیا ہے۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ پر 2 نومبر 2018 کی ایک رپورٹ میں بھی مذکورہ تصویرخبرکے ساتھ شائع کی گئی ہے۔ جس میں ایسوسی ایٹ پریس کے حوالے سے لکھا ہے کہ اپریل ماہ میں جنوبی چین کے سمندر میں بڑے پیمانے پر پی ایل اے نیوی نے مشقیں کی تھیں۔ مذکورہ رپورٹ میں کہیں بھی تائیوان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ وائرل تصویر ساوتھ چین کی ہے اور کم از کم 4 سال پرانی ہے۔ تاہم تصویر کے ساتھ کیا جارہا دعویٰ صحیح اور تازہ ہے۔
Our Sources
Media report Published by DWUrdu on 06 Aug 2022
Media report Published by ABCNews on 01 July 2019
Media report Published by South China Morning Post on 02 Nov 2018
نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044