Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میڈیا پر 36 سیکینڈ کے ایک ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ گجرات کے پیرانہ کے مسلمانوں کو مودی اور آر ایس ایس نے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
ویڈیو میں ایک جانب جاتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ نظر آرہی ہے، جس میں ایک شخص جو اپنا نام ناصر بتا رہا ہے، یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہا ہے کہ”پیرانہ گاؤں کے رہنے والے سبھی افراد ہجرت کر رہے ہیں، گاؤں میں 300/400 آر ایس ایس کے لوگ آگئے ہیں، جس کی وجہ سے پورا گاؤں ہجرت کر رہا ہے، تمام گجرات کے مسلمانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ان کو مدد پہنچائی جائے، میڈیا ملازمین بھی اس معاملے میں مداخلت کریں اور علاقہ کے ذمہ داران کو اس واقعے سے آگاہ کرے۔”۔
ٹویٹر پر وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیں۔
فیس بک ہر ایک صارف نے مذکورہ ویڈیو کے کیپشن میں لکھا ہے کہ “بھارتی ریاست گجرات میں آر ایس ایس کے سینکڑوں دہشت گردوں کے گاؤں میں اترنے کے بعد مسلمانوں کا ایک پورا گاؤں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔ یہ مسلمان اپنی جان اور عزت کے لیے بھاگ رہے ہیں کیونکہ ان کی تمام جائیدادیں ضبط ہو چکی ہیں..”۔
ای ٹی وی بھارت اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں گجرات کے احمد آباد سے متصل پیرانہ درگاہ کے احاطے میں دیوار کی تعمیر پر مقامی لوگوں نے احتجاج کیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیر قانونی طریقےسے درگاہ کے احاطے میں سنت پریڑاتیرتھ ٹرسٹ کی جانب سے دیوار تعمیر کی گئی۔ اس معاملے میں انتظامیہ نے بھی ٹرسٹ کی مدد کی تھی۔ اب اسی کے پیش نظر ایک ویڈیو کو پیرانہ گاؤں کے مسلمانوں کے ہجرت کا بتا کرشیئر کیا جا رہا ہے۔
فیس بک پر وائرل پوسٹ کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔
Fact Check/Verification
گجرات کے پیرانہ کے مسلمانوں کے ہجرت کرنے سے متعلق وائرل ویڈیو کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ہم نے گوگل پر پیرانہ درگاہ معاملے سے متعلق کچھ کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں انڈین ایکسپریس اور احمد آباد میرر پر شائع 31 جنوری 2022 کی رپورٹس ملیں۔ جس کے مطابق ڈسکروئی تعلقہ کے پیرانہ گاؤں کے رہنے والے سیکڑوں لوگ امام شاہ باوا سنستھا ٹرسٹ کے احاطے میں بن رہی دیوار کے خلاف احتجاج کرنے سڑکوں پر اتر آئے تھے۔
اسلالی پولس نے اس معاملے میں 64 خواتین سمیت 133 لوگوں کو حراست میں لیا تھا۔ ڈسکروئی ایس ڈی ایم کے بی پٹیل کے مطابق درگاہ میں تار کی باڑ کی جگہ دیوار تعمیر کرائے جانے کا کام ضلع کلکٹر کی اجازت سے چل رہا تھا، جس کی مخالفت تین ٹرسٹیوں نے کی تھی۔
پیرانہ کے مسلمانوں کے ہجرت کرنے کے حوالے سے وائرل ویڈیو کا کیا ہے سچ؟
وائرل ویڈیو کے سلسلے میں مزید کیورڈ سرچ کے دوران ہمیں انڈیا ٹی وی کے صحافی نرنےکپور کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر وائرل ویڈیو ملا۔ جس میں ناصر شیخ نامی شخص بتا رہا ہے کہ پیرانہ کے لوگوں کے ہجرت کے بارے میں جو میں نے ویڈیو میں کہا تھا وہ افواہ ہے۔ وائرل ویڈیو میں جو کچھ بھی میں نے کہا تھا، اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
مسجد کی دیوار کے تنازع کے سلسلے میں جو باتیں گردش کر رہی ہیں اس کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے پیرانہ درگاہ کے انتظامیہ سے رابطہ کیا، انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈِیا پر پیرانہ کے مسلمانوں کے ہجرت کے بارے میں جو باتیں گردش کر رہی ہیں وہ سراسر گمراہ کن ہے۔ دراصل گاؤں والے درگاہ کے ساتھ ہو رہی ناانصافی کے خلاف شکایت درج کرانے کلکٹر آفس گئے تھے۔ لیکن اس معاملے میں پولس نے 133 سے زائد لوگوں کو سڑک پر ہی روک لیا۔
پیرانہ درگاہ کے آفیشل سوشل میڈِیا اکاؤنٹ پر ایک پریس ریلیز ملا۔ جس میں دی گئی جانکاری کے مطابق پیرانہ گاؤں میں پیش آئے واقعے کا آر ایس ایس سے کوئی تعلق نہیں ہے، ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جو ہجرت کی بات کہی گِئی ہے، وہ ایک تحریک کا حصہ ہے، حقیقت میں گاؤں چھوڑ کر کوئی نہیں گیا ہے۔
پیرانہ گاؤں میں مسجد کی دیوار کے تنازع کے سلسلے میں جب ہم نے پیرانہ پولس سے رابطہ کیا تو چلا کہ گاؤں کے کسی بھی فرد نے نقل مکانی نہیں کی ہے، سوشل میڈِیا پر گمراہ کن دعوے کے ساتھ ہجرت کی خبر پھیلائی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ہار:گوپال گنج کی ایک مسجد میں دلت بچےکی دی گئی قربانی؟کیا ہے سچ؟پڑھیئے ہماری تحقیق
Conclusion
نیوز چیکر کی تحقیقات سے پتا چلا کہ جو ویڈیو گجرات کے احمدآباد سے متصل گاؤں پیرانہ کے مسلمانوں کی ہجرت کی خبر کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہے وہ گمراہ کن ہے۔ مندر اور مسجد کے درمیان دیوار کے تعمیراتی کام کو لے کر مسلمانوں کا ہجوم کلکٹریٹ آفس میں درخواست داخل کرانے کے لئے اکٹھا ہوا تھا، جس کا یہ ویڈیو ہے۔ پیرانہ درگاہ اور پیرانہ پولس نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔
Result :- Misleading
Our Source
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.