Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میڈیا پر ایک بچے کی تصویر کو افغانستان میں آئے حالیہ زلزلے سے جوڑ کر شیئر کیا جا رہا ہے۔ صارف نے تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے کہ “افغانستان زلزلے کے بعد تقریباً 24 گھنٹے بچہ ملبے میں دبا رہا اور اللہ کے فضل و کرم سے زندہ پایا”۔
مشرقی افغانستان کے پہاڑی علاقے میں 22 جون 2022 کو آئے زلزلے میں سیکڑوں افراد کی اموات ہو گئی تھیں۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر زلزلے سے منسوب کرکے متعدد تصاویر اور ویڈیو شیئر کئے گئے۔ اسی کے پیش نظر ان دنوں ملبے کے گرد کھڑے ایک بچے کی تصویر فیس بک اور ٹویٹر شیئر کی جا رہی ہے۔ تصویر سے متعلق صارف کا دعویٰ ہے کہ افغانستان زلزلے کے بعد یہ بچہ گھنٹو ملبے میں دبے رہنے کے باوجود زندہ پایا گیا۔
وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں اور یہاں دیکھیں۔
Fact Check/Verification
افغانستان میں آئے حالیہ زلزلے سے جوڑکر شیئر کی گئی بچے کی تصویر کو ہم نے ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں النہار العربی نامی ویب سائٹ پر 2021 کی ایک رپورٹ میں شائع وائرل تصویر ملی۔ تصویر کے ساتھ دی گئی جانکاری کے مطابق یہ تصویر جنگ سے بے گھر ہونے والا ایک یمنی بچے کی ہے۔
مزید سرچ کے دوران لکڑی پر ٹیک لگائے مایوس بچے کی تصویر یو این کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی ملی۔ جس میں اس تصویر کو یمن سے متعلق 2017 کے ایک آرٹیکل میں استعمال کیا گیا ہے۔
پھر ہم نے عربی میں “الطفل اليمني ركام” کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں العرابیہ کی ویب سائٹ پر بچے کی وائرل تصویر کے علاوہ دیگر تصویر کے ساتھ شائع 22 ستمبر 2018 کی ایک رپورٹ ملی۔ جس میں یمنی بچے کی اس تصویر کو کلک کرنے والے فوٹوگرافر نبيل الاوزري کا انٹر ویو ہے۔ رپورٹ کے مطابق بچے کا نام فراس ہے اور اس تصویر کو نبیل نامی یمنی فوٹوگرافر نے حوثیوں کی جانب سے یمن پر ہوئے حملے کے دوران کلک کیا تھا۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ یمنی بچے فراس کی یہ تصویر 29 جنوری 2015 کو بڑے پیمانے پر وائرل ہوئی تھی اور نبیل نے اس تصویر کو اپنے فیس بک پر شیئر کیا تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ افغانستان میں آئے حالیہ زلزلے کی یہ تصویر نہیں ہے۔
سرچ کے دوران ہمیں یو پک ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر نبیل کا فیس بک پیج ملا۔ جہاں ہمیں وائرل تصویر ملی۔ ہم نے نبیل سے واہٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کیا اور بچے کی تصویر بھیج کر ان سے اس بارے میں تفصیلات طلب کی۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ “اس تصویر کو میں نے ہی یمن میں 2015 میں کلک کیا تھا۔ جب حوثیوں کی فوج نے اس بچے کا گھر تباہ کر دیا تھا”۔
Conclusion
نیوز چیکر کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں آئے حالیہ زلزلے سے جوڑ کر یمنی بچے کی 7 سال پرانی تصویر کو غلط دعوے کے ساتھ شیئر کیا گیا۔ دراصل فراس نامی اس بچے کی تصویر کو یمن کے ایک فوٹوگرافر نبیل الاوزری نے 2015 میں کلک کیا تھا۔
Result: False
Our Sources
Report Published by annaharar.com on 05/Fab/2021
Report Published by unocha.org on 08 Feb 2017
Report Published by alarabiya.net on 22 Sept 2018
Facebook Post by Nabil.alawzari on 06 Fab 2015
نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.