Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
دعویٰ
ہندوستان کے میگھالیہ میں حیرت انگیز لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے۔
تصدیق
سوشل میڈیا پر تیس سیکینڈ کا ایک ویڈیو خوب گردش کررہا ہے۔جس میں پہاڑ اپنی جگہ سے کھسکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ویڈیو میں ایک موٹرسائیکل سوار بھی لینڈسلائیڈنگ کی چپیٹ میں آتا ہوا نظر آرہا ہے۔این کے اگروال نامی ٹویٹر یوزر نے دعویٰ کیا ہے کہ وائرل ویڈیومیگھالیہ کا ہے۔واضح رہے کہ وائرل ویڈیو سوشل میڈیاکے دیگر پلیٹ فارم پر مختلف دعوے کے ساتھ شیئر کیا جارہا ہے۔جس کا آرکائیو درج ذیل ہے۔
اے کے اگروال کے ٹویٹ کا آرکائیو۔
انڈیا کرونالوجی نامی فیس بک پیج کے پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں دیکھیں۔
سہیل انور کے ٹویٹ کا آرکائیو لنک یہاں دیکھیں۔
ہماری پڑتال
سوشل میڈیو پر وائرل ہورہے ویڈیو کی سچائی تک پہونچنے کے لئے سب سے پہلے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا میگھالیہ میں لینڈسلائیڈنگ کا واقعہ پیش آیا ہے یا نہیں؟پھر ہم نے “میگھالیہ لینڈسلائیڈنگ معاملہ” کیورڈ سرچ کیا۔جہاں ہمیں اسکرین پر ٹائمس ناؤ،شیلانگ ٹوڈے اور فلوڈسٹ نامی نیوز ویب سائٹ پر میگھالیہ لینڈ سلائڈنگ کے حوالے سے خبریں ملیں۔ ٹائمس ناؤ کے مطابق میگھالیہ میں لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے چارسو گھر تباہ ہوگئیں ہیں۔جبکہ ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔وہیں شیلانگ ٹوڈے کے مطابق پانچ سوچونتیس لوگ متاثر ہوئے ہیں اور تقریباً چارسوبیس گھروں کو کافی نقصان پہونچا ہے۔ان سبھی تحقیقات کے باوجود ہم نے مزید کیورڈ سرچ کیا۔جہا ہمیں اے این آئی کا ایک ٹویٹ ملا۔جس میں کچھ تصاویر کے ساتھ میگھالیہ لینڈ سلائڈنگ کا ذکر کیاگیا ہے۔لیکن یہاں بھی ہمیں وائرل ویڈیو کا کوئی سین نظر نہیں آیا۔
مذکورہ خبر سے واضح ہوچکا کہ میگھالیہ میں لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔پھر ہم نے وائرل ویڈیو کی حقیقت تک پہچنے کےلیے انوڈ کی مدد سے کچھ کیفریم نکالا اور اسے ریورس امیج سرچ کیا۔اس دوران ہمیں یوٹیوب پر ٹی وی ون نامی نیوزچینل پر وائرل ویڈیو والی خبر ملی۔لیکن غیرملکی زبان میں نیوزاینکر اس ویڈیو کے بارے میں بتا رہی تھی۔ جو ہمیں سمجھ میں نہیں آیا۔البتہ ویڈیو کے کیپشن کو پڑھنے کے بعد ایک نام سمجھ میں آیا کہ وائرل ویڈیو ‘سیان جُر’ کا ہے۔
پھر ہم نے (Cianjur) کو گوگل میپ پر سرچ کیا تو پتا چلا کہ یہ جگہ ہندوستان میں نہیں ہے۔بلکہ انڈونیشیاء میں ہے۔جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔
گوگل میپ سے واضح ہوچکا کہ وائرل ویڈیو انڈونیشیاء کا ہے۔پھر ہم نے یوٹیوب پر مزید کیورڈ سرچ کیا۔جہاں ہمیں آئی نیوز نامی یوٹیوب چینل پر وائرل ویڈیو کے حوالے سے انڈونیشین زبان میں خبر ملی۔
ان سبھی تحقیقات سے تسلی نہیں ملی تو ہم نے ٹویٹر پر میگھالیہ پولس کے ٹویٹرہینڈل کو کھنگالا۔جہاں ہمیں وائرل ویڈیو کے حوالے سے پکی خبر ملی۔میگھالیہ پولس نے اس ویڈیو کے بارے میں صاف طور پر لکھا ہے کہ یہ ویڈیو انڈونیشیا کا ہے۔جہاں اپریل ماہ میں لینڈسلائیڈنگ کا معاملہ پیش آیا تھا۔
نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل ویڈیو ہندستان کے میگھالیہ کے قومی شاہراہ کا نہیں ہے۔بلکہ انڈونیشیاء کے شیانگ جُر کا ہے۔
ٹولس کا استعمال
انوڈ سرچ
ریورس امیج سرچ
کیورڈ سرچ
یوٹیوب سرچ
گوگل میپ
فیس بک اورٹویٹر ایڈوانس سرچ
نتائج:گمراہ کن
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویزکے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.