Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
ان دنوں سوشل میڈیا پر 6 تصویروں پر مشتمل ایک کولاج خوب گشت کر رہا ہے۔ صارفین کا دعویٰ ہے کہ یہ تصاویر ترکی میں ہوئی آتشزدگی کی ہیں۔
فیس بک اور ٹویٹر پر ایک کولاج کو عربی اور اردو کیپشن کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تصاویر ترکی میں ہوئی آتشزدگی کی ہیں۔ مزید صارفین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ” ترکی میں آگ کسی سازش کے تحت لگائی گئی ہے۔ اللہ ترکی کی حفاظت کرے۔ درج ذیل میں آپ وائرل پوسٹ کو یک بعد دیگرے دیکھ سکتے ہیں۔
وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیں۔
کراؤڈ ٹینگل پر جب ہم نے ترکی آتشزدگی کے حوالے سے وائرل تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوے سے متعلق کیورڈ سرچ کیا تو ہمیں پتا چلا کہ اس موضوع پر پچھلے 7 دنوں میں 52,126 فیس بک صارفین تبادلہ خیال کر چکے ہیں۔ جس کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔
Fact Check/ Verification
ان دنوں ترکی آگ کے قہر سے دوچار ہے۔ ترکی کے 35 صوبوں کے مختلف جنگلات میں آگ کی زد میں ہیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے ترکی کے جنوبی حصے میں آگ لگنے کے متعدد واقعات رونما ہوئے تھے۔ اس حادثے میں اب تک 8 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ بتادوں کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور انہوں نے بیان جاری کیا ہے کہ اگر یہ آگ کسی سازش کے تحت لگائی گئی ہے تو اس کا انجام برا ہوگا۔
پھر ہم نے اپنی تحقیقات میں اضافہ کرتے ہوئے کولاج والی تصویر کو اویسم اسکرین شارٹ کی مدد سے مختلف کیفریم میں تقسیم کیا اور ایک ایک کرکے سبھی کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ جسے آپ درج ذیل میں اس کی اصلیت کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔
پہلی تصویر کو جب ہم نے ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں ترکی زبان میں 22 ستمبر 2020 کو شائع این ٹی وی کی ایک رپورٹ ملی۔ جس کے مطابق بائیں جانب والی پہلی تصویر ترکی کے ڈیکلی شہر کی ہے۔ جہاں زیتون کے باغ میں آگ لگ گئی تھی۔ جسے تھوڑے وقفے بعد بجھا دیا گیا تھا۔
Image1
دوسری تصویر کو جب ہم نے ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں ارتھ اوبزرویٹری ڈاٹ ناساڈاٹ جی او وی پر شائع 25 ستمبر 2000 کی ایک خبر ملی۔ جس کے مطابق دائیں جانب والی پہلی تصویر یونائٹیڈ اسٹیٹ کے مونٹینا کے بیٹرروٹ نیشنل فوریسٹ میں لگی آگ کی ہے۔اس تصویر کو 6 اگست 2000 کو جون میک کالگن نامی فوٹو گرافر نے کلک کیا تھا۔ تحقیقات میں یہ بھی ثابت ہوا کہ وائرل تصویر ترکی میں ہوئی آتشزدگی کی نہیں ہے۔
Image2
تیسری تصویر کو جب ہم نے ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں نیوز ٹریک لائیو نامی نیوز ویب سائٹ پر تیسری تصویر ملی۔ رپورٹ میں وائرل تصویر کے ساتھ ترکی میں ہوئی آتشزدگی کے حوالے سے خبر شائع کی گئی ہے۔بقیہ رپورٹ میں کہیں بھی تصویر کے بارے میں انکشاف نہیں کیا گیا ہے کہ اصل میں اس تصویر کا تعلق کہاں سے ہے۔
Image3
چوتھی تصویر جس میں فائر مین نظر آرہا ہے۔ جب ہم نے اسے سرچ کیا تو ہمیں سی بی سی نامی ویب سائٹ پر 5 اگست 2019 کی ایک خبر ملی۔ جس میں وائرل تصویر بھی نظر آئی۔ رپورٹ میں فائرفائٹر کس طرح سے آگ پر قابو پاتے ہیں، اس بارے میں بتایا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تصویر بھی ترکی آتشزدگی کی نہیں ہے۔
Image4
پانچویں تصویر کو جب ہم نے ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں ہیبر ترک نامی ویب سائٹ پر 14 اگست 2019 کی ایک خبر ملی۔ جس کے مطابق ترکی کے ایسکیشہر کے جنگلوں میں لگی آگ کی یہ تصویر ہے۔ لیکن اس تصویر کا حال کے دنوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
Image5
چھٹی تصویر کو جب ہم نے سرچ کیا تو ہمیں فوٹو پیڈی نامی ویب سائٹ پر ترکی زبان میں ایک خبر ملی۔ جس میں فائر فائٹر آگ بجھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق 2016 میں ہوئے فوٹو گرافی مقابلے میں اس تصویر نے دوسرا مقام حاصل کیا تھا۔
Image6
Conclusion
نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ کولاج والی وائرل تصویر حال کے دنوں میں ترکی میں ہوئی آتشزدگی کی نہیں ہے۔ بلکہ ان میں سے پانچ تصاویر ایک سال سے زیادہ پرانی ہیں۔ جبکہ ایک تصویر حال میں ہوئے حادثے کی ہے۔
Result: Misleading
Sources
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.