Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
دعویٰ
کروناوائرس سے بچنے کے لئے چینی سرکار نے پچیس ہزار متاثرین کو گولی سے مارنے کا حکم دے دیا ہے۔
تصدیق
ان دنوں کرونا وائرس سے چین کا کافی حصہ متاثر ہے۔ہزاروں کی تعداد لوگوں کی اموات ہوچکی ہے۔اسی درمیان طرح طرح کے پوسٹ اور ویڈیو شیئر کئے جارہے ہیں۔ان دنوں رنگولی نامی ٹویٹر ہینڈل سے ستاون سکینڈ کا ایک ویڈیو شیئر کیا گیا ہے۔جس میں دعویٰ کیا جارہا ہے چینی سرکار نے مہلک مرض میں مبتلا ۲۵ہزار افراد کو جان سے مارنے کا حکم دیا ہے۔آپ وائرل ویڈیو میں پولس کے ہاتھوں میں بندوق دیکھ سکتے ہیں۔ساتھ ہی ویڈیو میں گولیوں کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے۔اس ٹویٹ کو ہزار افراد نے لائک شیئر کیا ہے۔
At Wuzu Town, Huangmei County in #Hubei , a woman was said to have shot dead after she attempted to break the blockade set up to contain #coronavirus . 湖北省黄梅县五祖镇 , 据说这名妇女因强闯 #武汉肺炎 封锁线被警察打死。#CoronavirusOutbreak
何不 #全民自救 #全民互救 ? pic.twitter.com/HqEvzSknz2— 曾錚 Jennifer Zeng (@jenniferatntd) February 4, 2020
Top story: @Rangoli_A: ‘Meanwhile over 25,000 killed they have started shooting down all the people with the virus in China… this is so sad ‘ pic.twitter.com/Jt75ueELwL, see more https://t.co/G6O9FwZAZl
— Jose Carlos Mattos (@jmattos2001) February 13, 2020
ہماری کھوج
سوشل میڈیا پر ملی جانکاری کے بعد ہم نے ویڈیو کے پہلے حصے کااسکرین شارٹ لیا۔جس میں پولس ملازمین نظر آرہے ہیں۔
پہلا حصہ
کھوج کے دوران ہمیں ٹویٹر پرچینی میڈیا ایجنسی سی جی ٹی این کا ایک ٹویٹ ملا۔جس میں وائرل ویڈیو کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ ویڈیو میں جو پولس ملازمین ہتھیار کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔دراصل وہ پاگل کت٘وں سے نپٹنے کے لئے گشت کررہے ہیں۔
Police in Yiwu, Zhejiang said online video alleging them “shooting people sick with #coronavirus that refuse to be evacuated” is fake
The police said the video was “maliciously” manipulated with separate scenes since the armed officers were only dealing with a rabid dog pic.twitter.com/10NLLX7B1I
— CGTN (@CGTNOfficial) February 13, 2020
دوسراحصہ
سی جی ٹی سے ملی جانکاری کے بعد ہم نے ویڈیو کے دوسرے حصے کی جانچ شروع کی۔جہاں کیمرے کے پیچھے سے گولیوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ساتھ ہی ویڈیو میں ایک خاتون دیوار کے سہارے کھڑی نظر آرہی ہے۔
اس بارے میں جب ہم نے کھوج شروع کی تو ایسی کوئی معتبر جانکاری فراہم نہیں ہوئی۔البتہ یہ پتا چلا کہ وائرل ویڈیو کا دوسرا حصہ پچیس جنوری کو اپلوڈ کیا گیا تھا۔یہاں بتادوں کہ پچیس جنوری سے چین کا نیاسال بھی شروع ہوتاہے۔ممکن ہےجو آواز ہمیں سنائی دے رہی ہے وہ آتش بازی کی ہو اور لوگ اس کے خوف سے سڑکوں پر لیٹ گئے ہو۔
پہلی وجہ:۔کروناوائرس سے متاثرہ علاقے میں بغیر ماسک کے نہیں گھوما جاسکتا۔
دوسری وجہ:لیٹے ہوئے افراد کی میڈیکل جانچ کررہے شخص سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔
تیسری وجہ:ویڈیو میں نظر آرہے افراد کسی بھی طرح سے ڈرے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔
چوتھی وجہ:اگر یہاں گولیاں چلی ہوتی اور لوگوں کی موت ہوئی ہوتی تو یہاں خون پَسرا ہوا نظر آتا۔لیکن ویڈیو میں کہیں بھی خون نظر نہیں آرہاہے۔
تیسراحصہ
مندرجہ بالا میں مرے ہوئے نظر آرہے شخص کی حقیقت جاننے کے لئے مزید گہرائی سے تحقیق شروع کی۔
اس دوران ہمیں اوبزرورس ڈاٹ فرانس۲۴ نامی ویب سائٹ پر دوسری زبان میں شائع ایک خبر ملی۔گوگل ٹرانسلیٹ میں پتا چلا کہ یہ شخص پولس کی گولی سے نہیں بلکہ کسی حادثے میں اس کی موت ہوئی ہے۔
نیوزچیکر کی تحقیق میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ دو تین مختلف ویڈیو کو ملا کر غلط دعوے کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کیا جارہاہے۔
ٹولس کا استعما
گوگل کیورڈ سرچ
ٹویٹرایڈوانس سرچ
نتائج:جھوٹادعویٰ(گمراہ کن)
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویزکے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.