جمعرات, دسمبر 19, 2024
جمعرات, دسمبر 19, 2024

HomeFact Checkکیا وائرل تصویر میں نظر آرہے شخص کی آکسیجن کی کمی سے...

کیا وائرل تصویر میں نظر آرہے شخص کی آکسیجن کی کمی سے ہوئی موت؟ وائرل دعوے کا پڑھئے سچ

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

سوشل میڈیا پر ایک تصویر خوب گردش کر رہی ہے۔ وائرل تصویر میں نظر آرہے شخص کی پیشانی پر تلک لگا ہوا ہے اور وہ چیختے ہوئے نظر آرہا ہے۔ یوزر کا دعویٰ ہے کہ”ہمیں مندر چاہئیے، مندر چاہئیے مندرچاہئیے۔روٹی نہیں چاہئیے، اسکول نہیں چاہئیے ،اسپتال نہیں چاہئیے۔ چلانے والا کرونا کی وجہ سے مرگیا”۔ کچھ یوزرس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس شخص کی لکھنؤ میں آکسیجن نا ملنے کہ وجہ سے موت ہو گئی ہے۔

وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک۔
وائرل تصویر کا اسکرین شارٹ
Courtesy:FB/امامہ نواز

اس تصویر کو ہندی کیپشن کے ساتھ فیس بک اور ٹویٹر پر متعدد یوزرس نے شیئر کیا ہے۔ جسے آپ درج ذیل میں دیکھ سکتے ہیں۔

https://twitter.com/Gulab_tusiwal/status/1394633892225687555

کراؤڈ ٹینگل پر جب ہم نے وائرل تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوے کو سرچ کیا تو پتا چلا کہ پچھلے 3 دنوں میں 91,644 فیس بک یوزرس اس موضوع پر تبادلہ خیال کر چکے ہیں۔

وائرل تصویر کے حوالے سے کراؤڈ ٹینگل پر ملے ڈیٹا کا اسکرین شارٹ
وائرل تصویر کے حوالے سے کراؤڈ ٹینگل پر ملے ڈیٹا کا اسکرین شارٹ

Fact Check/Verification 

وائرل تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوے سےمتعلق ہم نے کئی پوسٹ کھنگالے۔ جہاں ہمیں فیس بک پر روندر سنگھ نیگی نام کے ایک یوزر کی پوسٹ ملی۔ جس میں اس دعوے کو گمراہ کن بتایا گیا ہے۔ روندر سنگھ نے اس دعوے کے اسکرین شارٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے ”شرم آنی چاہئے ایسے لوگوں کو جو ہندو دھرم کو بدنام کرنے کے لئے زندہ انسان کو مار دیتے ہیں”۔

یہ میرے خاص دوست جیتو گپتا جی ہیں، جو دہلی کے پٹپڑ گنج اسمبلی حلقہ کے ایک سماجی کارکن ہیں۔ وہ بالکل صحت یاب اور صحیح سالم دنیا میں موجود ہیں۔ انہیں کسی بھی طرح کی کوئی بیماری نہیں ہے، یہ اپنے گھر پر ہیں۔ کسی نے ان کے مرنے کی فرضی خبر شیئر کی ہے۔ جس نے بھی یہ خبر شیئر کی ہے ہم ان کے خلاف پولس میں ایف آئی آر درج کروائیں گے۔

روندر سنگھ کی مدد سے ہم نے جیتو گپتا (جیتندر گپتا) سے فون کال پر رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ “میں پوری طریقے سے ٹھیک ہوں اور زندہ ہوں، میرا پورا نام جیتندر گپتا ہے اور دہلی میں رہتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر میری موت کی خبر محض ایک افواہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر جب یہ خبر ہم نے پڑھی تو بہت افسوس ہوا۔ اسی وجہ سے ہم نے جلد سے جلد اس معاملے کی شکایت دہلی کے مدھوروہار پولس اسٹیشن میں درج کروائی۔اس طرح کی افواہ پھیلانے والے پر سخت کاروائی ہونی چاہیئے،میں پوری کوشش کروں گا کہ افواہ پھیلانے والوں کو سزا مل سکے”۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسپتال نہیں چاہیئے، مندر چاہیئے، اس طرح کا کوئی بیان انہوں نے نہیں دیا ہے۔یہ دعوی بھی پوری طریقے سے غلط ہے۔جیتندر گپتا نے جذباتی انداز میں کہا کہ میں ضرورت کی چیزوں کو سمجھتا ہوں اور میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے۔پتا نہیں لوگ اس طرح کے فرضی دعوے کیوں شیئر کر رہے ہیں، وہ اس سے کیا پانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے ساتھ ایف آئی آر کی ایک کاپی بھی شیئر کی ہے۔

جیتندر نے ہمیں اپنا ایک ویڈیو بھی شیئر کیا۔ جس میں وہ اپنے آپ کو بالکل صحت یاب بتا رہے ہیں اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جو خبر میرے سلسلے میں شیئر کی جا رہی ہے اسے نہ پھیلایا جا ئے۔

آپ کو بتادوں کہ جیتندر گپتا کی وائرل تصویر اسکوپ ووپ کے ایک ویڈیو کی ہے۔ جسے دسمبر 2019 میں اپلوڈ کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو کو اینکر سمدیش بھاٹیا نے شوٹ کیا تھا۔ جب وہ آر ایس ایس کی ریلی میں شامل ہونے کے لئے گئے تھے۔ آپ اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں کہ سمدیش آر ایس ایس ریلی اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں بتا رہے ہیں۔جس میں جتیندر گپتا بھی نظر آرہے ہیں۔دراصل اس ویڈیو میں جیتندر نے کہا تھا کہ پہلے روٹی نہیں چاہیئے، سڑک نہیں چاہیئے، مندر چاہیئے۔ اس کے بعد جیتندر کا یہ ویڈیو ہر طرف وائرل ہوگیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا آر ایس ایس پر آسٹریلیا نے عائد کردی ہے پابندی؟

Conclusion

نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل تصویر کے ساتھ کیا گیا دعوی فرضی ہے۔ تصویر میں نظر آرہے شخص کا نام جیتندر گپتا ہے ، جو دہلی کے رہنے والے ہیں اور وہ ابھی باحیات ہیں۔

Result: False

Sources

Facebook

Direct Contact

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular