جمعرات, دسمبر 19, 2024
جمعرات, دسمبر 19, 2024

HomeFact CheckFact Check: اجمیر درگاہ کے سروے سے منسوب کرکے گجرات کے سابق...

Fact Check: اجمیر درگاہ کے سروے سے منسوب کرکے گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی کی ویڈیو وائرل

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Claim
اجمیر درگاہ کا سروے کرنے آئے اس افسر کو پڑا دل کا دورہ۔
Fact
دعویٰ فرضی ہے اور ویڈیو میں نظر آنے والا شخص کوئی افسر نہیں بلکہ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی ہیں۔

قومی آواز کی 4 دسمبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ “27 نومبر کو اجمیر کی ایک سول عدالت نے ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا کی اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے درگاہ کمیٹی، مرکزی وزارتِ اقلیتی امور اور محکمہ آثارِ قدیمہ (اے ایس آئی) کو نوٹس جاری کیے ہیں، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ درگاہ اصل میں ایک شیو مندر تھی”۔

اب اسی تناظر میں ہندی کیپشن کے ساتھ ایک ویڈیو شیئر کی جا رہی ہے۔ جس میں ایک شخص بےہوش ہوکر زمین پر گرتا ہوا نظر آرہا ہے اور اسے ارد گرد کھڑے لوگ اٹھا رہے ہیں۔ صارف کا دعویٰ ہے کہ یہ وہ افسر ہے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی درگاہ کا سروے کرنے آئے تھے انہیں موقع پر دل کا دورہ پڑ گیا۔

اجمیر درگاہ کا سروے کرنے آئے اس افسر کو آیا دل کا دورہ۔
Courtesy: Facebook/Altaf Shaikh

Fact Check/Verification

اجمیر درگاہ کا سروے کرنے آئے افسر کو دل کا دورہ پڑنے کا بتاکر شیئر کی گئی ویڈیو کے ایک فریم کو ہم نے گوگل لینس پر تلاشا۔ جہاں ہمیں 15 فروری 2021 کو شیئر شدہ ہندوستان ٹائمس کے آفیشل فیس بک پیج پر ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ جس میں مذکورہ مناظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔

Courtesy: Facebook/Hindustan Times

ہندوستان ٹائمس کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے شخص گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی ہیں۔ جب وہ وڈودرا کے نظام پورہ میں بلدیاتی انتخابات کیلئے ریلی سے خطاب کر رہے تھے، ان کے بلیڈپریشر میں کمی آگئی تھی، جس کی وجہ سے وہ اسٹیج پر غش کھاکر بےہوش ہو گئے تھے، علاج کے بعد وہ صحتیاب بھی ہوگئے تھے۔ یہاں یہ واضح ہوچکا کہ وائرل کلپ میں نظر آنے والا شخص اجمیر درگاہ کا سروے کرنے والا کوئی افسر نہیں ہے بلکہ بی جے پی کے قدآور رہنما وگجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی ہیں۔

درگاہوں اور مساجد کے سروے سے متعلق تحقیقات کے دوران ہمیں کئی میڈیا رپورٹس موصول ہوئیں۔ 13 دسمبر کو شائع ہونے والی انقلاب اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق “اجمیر درگاہ، گیان واپی مسج، متھرا شاہی عید گاہ پر دعوے، عطاءاللہ مسجد کا معاملہ یا پھر بدایوں کی تاریخی مسجد معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون سے متعلق سپریم کورٹ میں عرضی داخل کیا گیا تھا۔ جس پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے تاحکم ثانی مساجد اور درگاہوں کے سروے پر روک لگادی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں رپورٹ لکھنے تک ایسی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی جس میں اجمیر درگاہ کا سروے کئے جانے کا ذکر ہو”۔

Courtesy: The Inquilab

مزید تصدیق کےلئے ہم نے درگاہ اجمیر کے انجمن سید زادگان کے سیکرٹری سید سرور چشتی سے فون پر رابطہ کیا۔ ہم نے ان سے درگاہ کے سروے سے متعلق وائرل ویڈیو کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے اس دعوے کو سرے سے فرضی قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ محض سوشل میڈیا پر درگاہ سے متعلق فرضی افواہ پھیلائی جا رہی ہے”۔

حالانکہ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی کی اس ویڈیو کو پہلے بھی فرضی دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا چکا ہے۔ جس سے متعلق نیوز چیکر اردو کا فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر احتجاج کے دوران ہوئے حادثے کی نہیں ہے یہ ویڈیو

Conclusion

اس طرح نیوز چیکر کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ وائرل ویڈیو میں نظر آنے والے شخص گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجے روپانی ہیں اور یہ آرٹیکل لکھنے تک اجمیر درگاہ کا سروے شروع نہیں ہوا ہے۔

Result: False

Sources
Facebook post by Hindustan Times on 14 Feb 2021
A report published by The Inquilab on 13 Dec 2024
Phonic Conversation with the Anjuman Committee Secretary Syed Sarwar Chishti.


نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واہٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے واہٹس ایپ چینل کو بھی فالو کریں۔

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular