Monday, March 17, 2025
اردو

Crime

بنگلہ دیشی مسلم جوڑے کی تصویر کو لو جہاد سے جوڑ کر سوشل میڈیا پر کیا جارہا شیئر

banner_image

کیرلہ میں ایک اور لڑکی لو جہاد کی شکار ہوگئی ہے۔ہرلڑکی شروع میں یہی کہتی ہے کہ میرا عبدل باقی مسلمانوں کی طرح نہیں ہے۔جب لڑکیوں کی آنکھوں سے پردہ ہٹ تا ہے تب ان کے پاس صرف 3 آپشن بچتےہیں۔چاہے انہیں سوٹکیس میں دفنادیا جاتا ہے ، فروخت کردی جاتی ہے یا پھر وہ بچہ پیدا کرنے والی مشین بن جاتی ہیں۔

Viral images from Facebook

زخموں کی شکار خاتون کے حوالے سے کیا ہے وائرل دعویٰ؟

غداروں نا باپ رام فیس بک پیج پر 22ستمبر کو 3تصاویر والا کولاج پوسٹر شیئر کیا گیا تھا۔جس میں ایک لڑکی لڑکے کے ساتھ کھڑی ہے اور دوسری تیسری تصاویر میں چہرے پر لگی چوٹ والی تصویر ہیں۔یوزر کا دعویٰ ہے کہ کیرلہ کی غیر مسلم لڑکی نے مسلمان لڑکے سے شادی کی۔اس کے بعد لڑکے نے لڑکی کو مارا پیٹا۔مطلب یہ کہ پورا معاملہ لوجہاد(LoveJihad)کا ہے۔کافی لوگ ایک ماہ پہلے بھی ان تصاویر کو شیئر کر چکے ہیں۔درج ذیل میں سبھی کے آرکائیو موجود ہیں۔

غداروں نا باپ رام کے پوسٹ کا آرکائیو لنک۔

وائرل تصاویر کو ٹویٹر پر سندیپ راجنیوال نے مذکور ہ دعوے کے ساتھ 28جولائی 2020کو شیئر کیا تھا۔جسے بی جے پی لیڈر کپل مشرانے بھی ری ٹویٹ کیا تھا۔آرکائیو لنک۔

Fact Check/Verification

وائرل تصاویر کی حقائق جاننے کےلئے ہم نے کچھ اہم ٹولس کا استعمال کیا۔جہاں ہمیں کچھ بھی اطمینان بخش نہیں ملا۔پھر ہم نے کچھ کیورڈ سرچ کیا۔جہاں ہمیں وائرل تصویرکے ساتھ ڈھاکہ ٹریبیون پر شائع 24جون 2020 کی ایک خبر ملی۔جوبنگلہ زبان میں تھی۔ہم نے اپنی ساتھی کی مدد سے اس خبر کا ترجمہ کروایا تو پتاچلا یہ معاملہ بنگلہ دیش کا ہے۔جہاں شوہر اور سسرال والوں نے لڑکی کو جہیز کی خواہش میں جم کر مارا پیٹا۔لڑکی کا نام سمیہ حسن ہے۔

1st Finding

مذکورہ خبر سے واضح ہوچکا کہ وائرل تصاویر ہندوستان کے کیرلہ کی نہیں ہے۔بلکہ بنگلہ دیش کی ہے۔پھر ہم نے انگلش میں کچھ کیورڈ سرچ کیا۔اس دوران ہمیں ڈھاکہ ٹریبیون کے انگلش نیوز ویب سائٹ پر زخموں والی تصویر کے ساتھ شائع 27جون کی ایک خبر ملی۔جس میں صاف طور پر لکھا ہوا تھا کہ ڈھاکہ کی ایک خاتون نے اپنے فیس بک پر اپنے ساتھ ہوئےگھریلو تشدد کو بیان کیاہے۔جو بہت ہی دل خراش انداز میں تھا۔لڑکی کے سسرال والوں نے جہیز کی وجہ سے اسے اتنا مارا پیٹا کہ شکل تک بگڑ گئی۔

2nd Finding

پھر ہم نے سوشل میڈیا پر سمیہ حسن کے پوسٹ کو تلاشا۔جہاں ہمیں سمیہ حسن کا پوسٹ ملا ۔جس میں رومن انگلش میں بنگلہ زبان کا استعما کر کےاپنے اوپر ہوئے ظلم و ستم کو عوام کے سامنے پیش کی ہے۔

https://www.facebook.com/sumaiya.hasan.77920/posts/295953598225028
Final Finding

Conclusion

نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل تصاویر کا لوجہاد اور ہندوستان کے کیرلہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔بلکہ یہ تصویر بنگلہ دیش کی سمیہ حسن نامی لڑکی کی ہے۔رپوٹ سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ سمیہ حسن نے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کیا ہے۔

Result: Misplaced ContextFalse

Our Sources

Bangla:https://bangla.dhakatribune.com/bangladesh/2020/06/27/24726/——-

dhakatribune:https://www.dhakatribune.com/bangladesh/dhaka/2020/06/27/woman-tortured-by-husband-in-laws-takes-to-social-media-for-justice?fb_comment_id=3013445595429197_3058883014218788

Facebook:https://www.facebook.com/sumaiya.hasan.77920/posts/295953598225028

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

 9999499044

image
اگر آپ کسی دعوے کی جانچ کرنا چاہتے ہیں، رائے دینا چاہتے ہیں یا شکایت درج کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں واٹس ایپ کریں +91-9999499044 یا ہمیں ای میل کریں checkthis@newschecker.in​. آپ بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
About Us

Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check

Contact Us: checkthis@newschecker.in

17,453

Fact checks done

FOLLOW US
imageimageimageimageimageimageimage
cookie

ہماری ویب سائٹ کوکیز استعمال کرتی ہے

ہم کوکیز اور مماثل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مواد کو شخصی بنایا جا سکے، اشتہار کو ترتیب دی جا سکے، اور بہتر تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ 'ٹھیک ہے' پر کلک کرکے یا کوکی ترجیحات میں ایک اختیار کو آن کرنے سے، آپ اس پر متفق ہوتے ہیں، جیسا کہ ہماری کوکی پالیسی میں وضاحت کے طور پر ہوا ہے۔