Monday, March 17, 2025
اردو

Crime

کیا بہار کے گوپال گنج کی ایک مسجد میں دلت بچے کی بلی دی گئی ہے؟کیا ہے سچ؟پڑھیئے ہماری تحقیق

banner_image

دعویٰ

بہار کے گوپال گنج میں ایک دلت بچے کی بلی(قربانی) مسجد میں دی گئی ہے۔لیکن پولس نے کوئی کاروائی نہیں کی۔آرکائیویوگی دیوناتھ ٹویٹر۔

تصدیق

وائرل دعوے کو پڑھنے کے بعد ہم نے اپنی ابتدائی تحۡقیقات شروع کی۔سب سے پہلے ہم نے اس خبر کو سوشل میڈیا پر تلاشا کہ آیا یہ کہیں اور بھی وائرل ہورہی ہے یا نہیں؟اس دوران ہمیں ٹویٹر اور فیس بک پر کافی مقدار میں وائرل پوسٹ ملے۔جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بہار کے گوپال گنج کی ایک مسجد میں دلت بچے کی بلی (قربانی) دی گئی ہے۔بچے کی فیملی ڈر کے مارے بہار سے یوپی ہجرت کر گئی ہے۔

अभिषेक मिश्रा@abhikita1810#मस्जिद को शक्तिशाली बनाने के लिए बच्चे की दी बलि,पुलिस प्रताड़ना के बाद हिन्दू परिवार को छोड़ना पड़ा गाँव।यह हालत मेरे प्रदेश बिहार के गोपालगंज जिले की है, रोहित की बहन का कहना है,”रोहित को मुसलमानों ने बलि दी है और भाई को मार डाला गया @NitishKumar @helpline_BP @DGPBihar

View image on Twitter

9:05 AM – May 11, 2020Twitter Ads info and privacySee अभिषेक मिश्रा’s other TweetsUmesh kumar singh@uks9999

संत समाज से विनती है कि इसके लिए भी कुछ करें। @swamidipankar @Swamy39@AvdheshanandG@SwamiRamsarnac2@YogiDevnathji@AcharyaPramodk@DN_Thakur_Ji@AchVikrmaditya@myogiadityanath@SriSrihttps://khabartak.com/bihar-child-sacrificed-in-mosque-police/ …Bihar में नाबालिग की मस्जिद में चढ़ाई बलि Police का व्यवहार शर्मनाकबिहार में ऐसा मामला उजागर हुआ है जिसे सुनकर किसी का भी मन विचिलित हो सकता है | यह घटना पुलिस एवं प्रशासन की अनदेखी का नतीजा है | यहाँ एक मासूम की मस्जिद में बेरहमी से हत्या कर उसका शव नदी में बहा…khabartak.com1311:32 PM – May 10, 2020Twitter Ads info and privacy15 people are talking about this

ہماری کھوج

وائرل پوسٹ کے حوالے سے ہم نے گوگل پر کیورڈ رسرچ  کیا۔اس دوران ہمیں خبرتک،اوپ انڈیا اور ہندوپوسٹ نامی ویب سائٹ پر وائرل خبریں ملیں۔جس میں اس خبر کو سچ بتایا گیا ہے۔احتیاطاً سبھی خبروں کو ہم نے آرکائیو کرلیا۔تاکہ مستقبل میں ہماری خبر کو بے بنیاد نہ بتایا جائے۔

مذکورہ جانکاری سے تسلی نہیں ملی تو ہم نے مزید کیورڈ سرچ کیا۔جہاں ہمیں ایک ٹویٹ ملا۔جس میں اوپ انڈیا کی خبر میں لگی تصویر تھی۔ٹویٹ کے مطابق بہار کے گوپال گنج میں ایک لڑکے کو اسلئے موت کے گھات اتار دیا گیا۔کیونکہ وہ مسجد بنا رہا تھا۔لیکن یہاں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ پورا معاملہ ہے کیا؟پھر ہم نے خبر تک کی خبر کے ساتھ لگی مسجد کی فوٹو کو ریورس امیج سرچ کیا۔تو ہمیں شاہ جہاں ماسکیو ڈاٹ اوآرجی ڈاٹ یوکے نامی ویب سائٹ پر وائرل تصویر ملی۔جس کے مطابق یہ مسجد برطانیہ اور شمالی یورپ میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔یہاں یہ واضح ہوگیا کہ خبروں میں جو تصویر مسجد کی لگائی گئی ہے وہ ہندوستان کی نہیں ہے۔اب خبر میں کتنی صداقت ہے وہ آگے کے ریسرچ سے واضح ہوگا۔

ان سبھی تحقیقات کے باوجود ہمیں تسلی نہیں ملی تو ہم نے بہارڈی جی پی واہٹس ایپ نمبر پر وائرل خبر کو بھیجا۔لیکن جواب کچھ نہیں ملا۔پھر ہم نے ہیلپ لائن نمبرپر کال کی تو انہوں کہاں کہ وائرل پوسٹ دیکھر بتاتا ہوں۔کچھ وقفے گذرنے کے بعد ادھر سے پلیز کال می کا جواب آیا۔پھر ہم نے بھیجے گئے نمبر پر ان سے بات کی تو انہوں نے صاف طور پر کہا کہ یہ معاملہ پرانا ہے۔آپ گوپال گنج ایس پی سے بات کرلیجئے۔اس کے بعد ہم نے گوپال گنج کے ایس پی منوج کمارتیواری کو فون کال کیا اور ان کےسامنے وائرل خبر کا ذکر کیا تو منوج کمار نے صاف کہا کہ ایسا کوئی بھی معالہ یہاں پیش نہیں آیا ہے۔البتہ ڈیڑھ مہینہ پہلے چار بچے ندی میں نہانے گئے تھے۔وہیں ایک کی موت ڈوب کر ہوگئی تھی۔جس کے بعد چار افراد کی گرفتاری بھی کی جاچکی ہے۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ مسجد میں بچے کی بلی والی خبریں فرضی ہے۔

ایس پی منوج کمار سے بات چیت کا آڈیو

سبھی تحقیقات سے واضح ہوچکا کہ مسجد میں بچے کی بلی والی خبریں فرضی ہیں اور جو تصویر خبروں کے ساتھ شائع کی جارہی ہے۔ان میں مسجد کی تصویر برطانیہ کی شاہ جہاں مسجد ہے۔اس کے باجود ہم نے ایس پی  نے جو بات کہی تھی اس حوالے سے کچھ کیورڈ سرچ کیا تو نیوزایٹین ہندی اور دینک جاگرن پر ایک خبر ملی۔جس میں ڈوبنے والی بات کہی گئی ہے۔لیکن کہیں بھی اس خبر میں مذہبی یا مسجد میں بلی کی بات نہیں لکھا ہے۔

نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں بچے کی بلی والی خبر فرضی ہے۔البتہ گوپال گنج میں گذشتہ ماہ چار بچے ندی میں نہانے گئے تھے۔اسی دوران ایک بچے کی موت ڈوب کر ہوگئی تھی۔جسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔لیکن پولس نے معاملے پر سخت کاروائی کرتے ہوئے سبھی ملزمین کو گرفتار کر جیل بھی بھیج دیا۔

ٹولس کا استعمال

ریورس امیج سرچ

کیورڈ سرچ

یوٹیوب سرچ

نتائج:فرضی دعویٰ

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویزکے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔۔

 9999499044

image
اگر آپ کسی دعوے کی جانچ کرنا چاہتے ہیں، رائے دینا چاہتے ہیں یا شکایت درج کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں واٹس ایپ کریں +91-9999499044 یا ہمیں ای میل کریں checkthis@newschecker.in​. آپ بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
About Us

Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check

Contact Us: checkthis@newschecker.in

17,450

Fact checks done

FOLLOW US
imageimageimageimageimageimageimage
cookie

ہماری ویب سائٹ کوکیز استعمال کرتی ہے

ہم کوکیز اور مماثل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مواد کو شخصی بنایا جا سکے، اشتہار کو ترتیب دی جا سکے، اور بہتر تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ 'ٹھیک ہے' پر کلک کرکے یا کوکی ترجیحات میں ایک اختیار کو آن کرنے سے، آپ اس پر متفق ہوتے ہیں، جیسا کہ ہماری کوکی پالیسی میں وضاحت کے طور پر ہوا ہے۔