جمعہ, مارچ 29, 2024
جمعہ, مارچ 29, 2024

ہومFact Checkاسٹریٹ لائٹ کے زیر پڑھ رہے بچے کی یہ تصویر مصر کی...

اسٹریٹ لائٹ کے زیر پڑھ رہے بچے کی یہ تصویر مصر کی نہیں ہے

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

سوشل میڈیا پر اسٹریٹ لائٹ کے زیر پڑھ رہے بچے کی ایک تصویر وائرل ہورہی ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اسٹریٹ لائٹس کے نیچے پڑھ رہا یہ بچہ مصر کا ہے۔ اس کے علاقے میں کچھ غریب لوگوں نے بجلی بل جمع نہیں کیا تو پورے علاقے کی بجلی کاٹ دی گئی ہے۔

ٹویٹر پر اس تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے کہ “مصر میں ایک بچہ اسٹریٹ لائٹس کے نیچے ہوم ورک کررہا ہے، اس علاقے میں کچھ غریب لوگوں کی جانب سے بجلی کے بل جمع نہ کرنے پر پورے علاقے میں گھروں کی بجلی کاٹ دی گئی ہے۔ مسلمانوں پر کیسے شیطان صفت درندوں کی حکمرانی ہے، جو ہر چیز کو اپنے باپ کی ملکیت سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں”۔

اسٹریٹ لائٹ کے زیر پڑھ رہے بچے کی یہ تصویر مصر کی نہیں ہے
Courtesy:Twitter @AhmadAz05037963

فیس بک پر بھی اس تصویر کو مذکورہ دعوے کے ساتھ ایک صارف نے شیئر کیا ہے۔

اسٹریٹ لائٹ کے زیر پڑھ رہے بچے کی یہ تصویر مصر کی نہیں ہے
Courtesy:Facebook/Live Line

عربی کیپشن کے ساتھ مصر کا بتاکر اس تصویر کو فیس بک اور ٹویٹر پر متعدد صارفین نے شیئر کیا ہے۔

Fact Check/Verification

مصر کا بتاکر شیئر کی گئی اسٹریٹ لائٹ کے زیر پڑھ رہے بچے کی تصویر کو ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں وزارت توانائی کے ‘ای ای ایس ایل انڈیا’ انرجی کارپوریشن کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے شیئر کی گئی بچے کی تصویر ملی۔ جس میں اسٹریٹ لائٹ کے نچے پڑھ رہے بچے کی تصویر کو فیروز آباد کا بتایا گیا ہے۔

سماجی کارکن انامیکا آریہ نے بھی بچے کی تصویر کو اپنے ٹویٹر ہینڈل پر شیئر کرکے مرادآباد کمشنر اور ڈی ایم بجنور سے بچے کی مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔ جس کے جواب میں مرادآباد کمشنر نے لکھا کہ اس معاملے کو نوٹس میں لے لیا گیا ہے۔

یہاں یہ واضح ہو گیا کہ وائرل تصویر مصر کی نہیں ہے، بلکہ بھارت کی ہے۔ پھر ہم نے ہندی میں “اتر پردیش:اسٹریٹ لائٹ میں پڑھ رہے بچے کی تصویر وائرل” کیورڈ گوگل پر سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں بجنور ایکسپریس نامی یوٹیوب چینل پر 2 ستمبر 2022 کو شائع ویڈیو رپورٹ ملی۔ جس میں بجنور ایکسپریس کے رپورٹر نسیم احمد وائرل تصویر میں نظر آ رہے بچے اور ان کی والدہ سے گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

رپورٹ میں بچے کو بھارت کے نجیب آباد کے سہانپور کا بتایا گیا ہے اور اس کا نام محمد ایشان ہے۔ ایشان سرکاری اسکول کا طالب علم ہے اور اس کے گھر میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسکول کا کام اسٹریٹ لائٹ میں بیٹھ کر کررہا تھا۔

اس کے علاوہ ہمیں بجنور اسپیڈ نیوز نامی یوٹیوب چینل پر وائرل تصویر سے متعلق گراؤنڈ رپورٹ ملی۔ جس میں رپورٹر الطاف نے بچے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے شاداب اور محمد ایشان جس کی تصویر وائرل ہوئی ہے، ان دونوں سے گفتگو کی ہے۔ گفتگو کے دوران بچے نے بتایا کہ وہ چوتھی جماعت کا طالب علم ہے، گھر میں بجلی نہ ہونے کہ وجہ سے وہ رات کو اسٹریٹ لائٹ کے نیچے ہندی سبجیکٹ کی تیاری کر رہا تھا۔

شاداب نے جب انہیں لگن کے ساتھ پڑھتے ہوئے دیکھا تو تصویر کلک کرکے سوشل میڈیا پر شیئر کردیا، جس کے بعد ملک و بیرون ممالک میں الگ الگ دعوے کے ساتھ ایشان کی تصویر وائرل ہو گئی۔

Courtesy:YouTube/Bijnor speed News

لائیو ہندوستان کی نیوز ویب سائٹ پر شائع 4 ستمبر کی رپورٹ میں بھی اسٹریٹ لائٹ کے زیر پڑھ رہے بچے کی تصویر کو نجیب آباد کے سہانپور کا بتایا گیا ہے۔

Conclusion

اس طرح نیوز چیکر کی تحقیقات سے واضح ہوا کہ اسٹریٹ لائٹ کے زیر پڑھ رہے بچے کی یہ تصویر مصر کی نہیں ہے، بلکہ بھارت میں بجنور، نجیب آباد کے علاقہ سہانپور نامی ایک گاؤں کی ہے۔

Result: False

Our Sources

Tweet by @EESL_India on 02 sep 2022
Tweet by @vanamikaarya on 01 sep 2022
Video Uploaded by Bijnor express on 02 sep 2022
Video Uploaded by Bijnor Speed News on 02 sep 2022
Media Report Published by Live hindustan on 04 sep 2022

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular