جمعرات, دسمبر 19, 2024
جمعرات, دسمبر 19, 2024

HomeFact Checkپانی میں تیر رہی کاروں کی یہ تصویر شمالی عراق کے اربیل...

پانی میں تیر رہی کاروں کی یہ تصویر شمالی عراق کے اربیل کی نہیں ہے

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

ٹویٹر پر پانی میں تیر رہی کاروں کی ایک تصویر شمالی عراق کے اربیل کا بتاکر شیئر کی جا رہی ہے۔ صارف نے تصویر کے کیپشن میں عربی زبان میں لکھا ہے کہ شمالی عراق کے اربیل میں تیز بارش کے سبب گاڑیاں ڈوب گئیں۔

پانی میں تیر رہی کاروں کی یہ تصویر شمالی عراق کے اربیل کی نہیں ہے
Courtesy: @WAZ3ydtK73uFJPO

سعودی گزٹ پر شائع 18دسمبر 2021 کی ایک خبر کے مطابق شمالی عراق کے نیم خودمختار کردستان علاقے کی راجدھانی اربیل میں رواں سال کے 17 دسمبر کو شدید بارش کے سبب جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔ تیز بارش کی وجہ سے 12 افراد کی اموات ہو گئی، جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ کئی بچے اور خواتین کی گمشدگی کی بھی بات کہی گئی ہے۔ اسی کے پیش نظر اب پانی میں تیر رہی کاروں کی ایک تصویر اربیل کا بتاکر شیئر کی جا رہی ہے۔ ایک صارف نے عربی کیپشن میں لکھا ہے کہ “أمطار أربيل ليلة أمس شمال العراق”جس کا اردو ترجمہ ‘شمالی عراق کے اربیل میں گزشتہ رات تیز بارش کا منظر’ ہے۔

مذکورہ تصویر کو دیگر ٹویٹر اور فیس بک صارفین نے مختلف دعوے کے ساتھ بھی شیئر کیا ہے۔ جس کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہیں۔

Fact check/Verification 

کیا پانی میں تیر رہی کاروں کی یہ تصویر شمالی عراق کے اربیل کی ہے؟ یہ جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے وائرل تصویر کو گوگل لینس پر سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں اسکرین پر رواں سال کے اکتوبر ماہ کی کئی خبروں کے لنک فراہم ہوئے۔ جس کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔

پھر ہم نے ریورس امیج سرچ کے ساتھ کچھ کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں الجزیرہ انگلش، گلف ٹوڈے اور نیوز نیشن پر وائرل تصویر کے ساتھ شائع 20 اکتوبر 2021 کی خبریں ملیں۔ جس میں اس تصویر کو بھارت کے اتراکھنڈ کے جیم کاربیٹ نیشنل پارک کا بتایا گیا ہے۔ بتادوں کہ اس تصویر کا کریڈٹ ایسو سی ایٹیڈ ویب سائٹ کے فوٹو گرافر مصطفیٰ قریشی کو دیا گیا ہے۔

پھر ہم نے اس تصویر کو ایسوسی ایٹیڈ پریس کی ویب سائٹ پر تلاشا، جہاں ہمیں وائرل تصویر کے سلسلے میں پوری جانکاری ملی۔ ویب سائٹ پر دی گئی جانکاری کے مطابق شدید بارش کے سبب کوسی ندی میں پانی کا بہاؤ تیز ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے اتراکھنڈ کے جیم کاربیٹ نیشنل پارک، ریزارٹ ہوٹل میں لگی کاریں سیلاب کے پانی میں ڈوب گئی تھیں۔ سیلاب کے باعث 20 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جبکہ متعدد افراد کے لاپتہ ہونے کی بھی بات کہی گئی ہے۔

بتادوں کہ اس تصویر کو 19 اکتوبر 2021 کو ایسو سی ایٹیڈ پریس کے فوٹوگرافر مصطفیٰ قریشی نے کلک کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پانی میں تیر رہی گاڑیوں والی تصویر پاکستان کے اسلام آباد کی ہے؟

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ پانی میں تیر رہی کاروں کی وائرل تصویر شمالی عراق کے نیم خودمختار کردستان علاقے کی راجدھانی اربیل کی نہیں ہے۔ بلکہ یہ تصویر بھارت کے اتراکھنڈ کے جیم کاربیٹ نیشنل پارک کی ہے۔ جسے اب گمراہ کن دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔


Result: Misleading

Our Sources

Al jazeeraEN:(https://www.aljazeera.com/news/2021/10/20/india-nepal-floods-landslides-uttarakhand-kerala)

GulfToday:(https://www.gulftoday.ae/news/2021/10/20/landslides-floods-kill-128-in-india-and-nepal)

Newsnation:(https://www.newsnationtv.com/india/news/deadly-rain-in-uttarakhand-and-kerala-climate-change-alongwith-these-reasons-create-havoc-219712.html)

AP:(https://www.apimages.com/metadata/Index/Pictures-of-the-Week-Global-Photo-Gallery/b31ede50362c44c697ac5fbea6f41a8a/2/0)


نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular