جمعہ, اپریل 19, 2024
جمعہ, اپریل 19, 2024

ہومFact Checkیہ تصاویر کابل کی مسجد میں ہوئے حالیہ بم دھماکے کی نہیں...

یہ تصاویر کابل کی مسجد میں ہوئے حالیہ بم دھماکے کی نہیں ہیں

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

سوشل نٹورکنگ سائٹس پر دو مختلف تصاویر کو کابل کی مسجد میں ہونے والے دھماکے سے منسوب کرکے شیئر کیا جارہا ہے۔ پہلی تصویر جس میں عمارت کے اندر دھواں نظر آرہا ہے اور دوسری جس میں ایک شخص کو زمین پر زخمی حالت میں دیکھا جاسکتا ہے۔

فیس بک پر پہلی تصویر جس میں عمارت کے درمیان سے دھوان نکلتا ہوا نظر آرہا ہے، اس کے ساتھ صارف نے کیپشن میں لکھا ہے کہ “کابل شہر کی مسجد میں نماز کے دوران بم دھماکہ درجنوں افراد شہید اور زخمی”۔

یہ تصاویر کابل کی مسجد میں ہوئے حالیہ بم دھماکے کی نہیں ہیں
Courtesy:FB/PakistaniPostNetwor

ٹویٹر پر افغان اردو نامی ٹویٹر ہینڈل نے زمین پر زخمی حالت میں پڑے شخص کی تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے کہ “کابل میں کل رات ہونے والے بم دھماکے میں 21 افراد جاں بحق ہوئے، کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے بتایا کل نماز مغرب میں شہر کے 17 ویں ڈسٹرکٹ کی مسجد میں بم دھماکہ ہوا جس میں 21 افراد جاں بحق 33 زخمی ہو گئے، پولیس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے”۔

یہ تصاویر کابل کی مسجد میں ہوئے حالیہ بم دھماکے کی نہیں ہیں
Courtesy:Twitter @AfghanUrdu

میڈِیا رپورٹس کے مطابق 17 اگست بروز بدھ کی شام کابل کی مسجد میں نماز مغرب کے دوران دھماکہ ہوا تھا۔ اس حادثے سے منسوب کرکے سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر شیئر کی گئیں۔ انہیں میں سے دو ایسی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ جس کا فیکٹ چیک یہاں کیا جا ئے گا۔

Fact Check/Verification

نیوز چیکر نے کابل کی مسجد میں ہونے والے دھماکے سے منسوب کرکے شیئر کی گئی پہلی تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔ جہاں ہمیں ووکس ڈاٹ کام پر ہوبہو وائرل تصویر کے ساتھ شائع 1 جولائی 2019 کی ایک رپورٹ ملی۔ تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ کابل، افغانستان میں ہوئے بم دھماکے کے بعد اٹھتا ہوا دھواں۔ اس تصویر کا کریڈٹ ہارون سبوان/آنادولو ایجنسی اور گیٹی امیج کو دیا گیا ہے۔

1st Image

Courtesy:Vox.com

پھر ہم نے گیٹی امیج کی ویب سائٹ پر مذکورہ کیورڈ سرچ کیا تو ہمیں وہی تصویر ملی، جسے سوشل میڈیا پر حالیہ بم دھماکے سے منسوب کرکے شیئر کیا گیا ہے۔ ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق افغانستان کے کابل میں 01 جولائی 2019 کو ایک خودکش بم دھماکہ ہوا تھا۔ جس میں جائے وقوع سے اٹھ رہے دھویں کی تصویر ہے۔ ملنے والی معلومات کے مطابق دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 65 زخمی ہوگئے ہیں۔ جس کی تصدیق حکام اور مقامی میڈیا نے بھی کی ہے۔ یہاں یہ واضح ہوچکا کہ پہلی تصویر جولائی 2019 کی ہے اور حالیہ دھماکے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری تصویر جس میں زمین پر زخمی حالت میں پڑا شخص نظر آرہا ہے۔ سچائی جاننے کے لیے ہم نے تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں ٹائم ڈاٹ کام، رائٹرز اور نیو یارک ٹائمس پر شائع 2017 کی رپورٹز ملیں۔ رائٹرز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق زمین پر پڑے شخص کو 31 مئی 2017 کے کابل دھماکے میں زخمی بتایا گیا ہے۔

2nd Image

Courtesy:Time.com

یہ بھی پڑھیں:افغانستان کے مزار شریف مسجد میں ہوئے دھماکے کی نہیں ہے یہ تصویر

Conclusion

مذکورہ رپورٹز سے واضح ہوا کہ دونوں تصاویر حالیہ کابل کی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کی نہیں ہیں، بلکہ پہلی تصویر 2019 کی ہے اور دوسری 2017 کی ہے، جسے حالیہ دھماکے سے منسوب کرکے شیئر کیا جارہا ہے۔

Result: False

Our Sources

Media Report Published by Vox.com on 01, July 2019
Image Published by GettyImages on 01, July 2019
Media Report Published by time.com on  1, June2017
Media Report Published by nytimes.com on  31,May 2017

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular