Authors
Cliam
فیس بک اور ایکس پر ایک تصویر شیئر کی جا رہی ہے۔ جس میں زمین پر الٹا لیٹے ہوئے شخص پر پولس اہلکار بندوق تانے ہوئے نظر آرہا ہے۔ صارفین کا دعویٰ ہے کی یہ تصویر یمن میں نابالغ بچی کی عصمت ریزی کرنے والے مجرم کو سرِعام سزائے موت دینے کی ہے۔
آر ٹی ای اردو نامی مستند ایکس صارف نے تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے کہ “یمن میں تین سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور بعد میں قتل کرنے والے کو سرعام مجمع میں گولی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا”۔
وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں اور یہاں دیکھیں۔
Fact
یمن میں نابالغ بچی کی عصمت ریزی کے جرم میں سرعام موت کی سزا دینے کا بتاکر شیئر کی گئی تصویر کو ہم نے گوگل لینس پر سرچ کیا۔ جہاں ہمیں 5 جنوری 2016 کو شیئر شدہ ہیلو ایکسکیوز می نامی فیس بک پیج پر ہوبہو تصویر ملی۔ جس میں اس تصویر کے حوالے سے لکھا ہے کہ یمن میں 11 سالہ لڑکے کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے جرم میں ایک حجام کو سرعام یمن کے صنعاء میں سزائے موت دی گئی۔
پھر ہم نے مذکورہ کیورڈ کے ساتھ تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔ جہاں ہمیں دی سین ڈیاگو یونیئن ٹریبیون نامی ویب سائٹ پر یہی تصویر موصول ہوئی، جسے 6 جولائی 2009 کو شائع کیا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق 2008 کے دسمبر ماہ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر حمادی القصاب نامی 11 سالہ لڑکے کے ساتھ سیلون میں یحیٰ حسین نامی شخص نے عصمت دری کے بعد، بچے کے جسم کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے دفنا دیا تھا۔
جس کے بعد 2009 میں مجرم نے اپنا جرم قبول کیا تو عدالت نے اسے سرعام سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔ جس کے بعد اس کے ہاتھ باندھ کر شہر بھر میں گھمایا گیا تھا اور بعد میں اسے چار گولی مار کر سرعام سزا دی گئی تھی۔
لہٰذا نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ یہ واقعہ 2009 کا ہے جس میں عصمت دری کا معاملہ کسی لڑکی کے ساتھ نہیں بلکہ 11 سالہ لڑکے کے ساتھ پیش آیا تھا۔ یہ درست ہے کہ مجرم کو سرعام گولی مار کر سزا دی گئی تھی۔
Result: False
Sources
Facebook post by Hello Excuse Me ? on 05Jan 2016
Report published by The San Diego Union-Tribune on July 6, 2009
نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واہٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے واہٹس ایپ چینل کو بھی فالو کریں۔