Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی جا رہی ہے، جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ برہنہ کر کے زد و کوب کئے جا رہے یہ لوگ سری لنکا کے وزراء ہیں۔ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کچھ برہنہ لوگ سامنے کھڑے ہجوم سے مدد کی التجاء کر رہے ہیں۔ ویڈیو سے متعلق ٹویٹر پر اوریا مقبول جان نامی صارف کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو میں نیم برہنہ نظر آرہے لوگ سری لنکا کے کرپٹ وزراء ہیں جو عوام کے نرغے میں ہیں۔
اس ویڈیو کو فیس بک اور ٹویٹر پر متعدد صارفین نے بھی سری لنکا کے وزرا کی پٹائی کا بتاکر شیئر کیا ہے۔
درحقیقت معاشی بحران کا سامنا کر رہے سری لنکا کی صورت حال گزشتہ چند ماہ سے غیر معمولی ہوگئی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے لوگ مہنگائی اور روزگار کے مسائل پر حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ادھر سری لنکا کے سابق وزیر اعظم مہندا راجا پکشے نے ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا تھا۔ جس کے بعد مظاہرے میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس بیچ مہندا راجا پکشے کو استعفیٰ دینا پڑا اور رانیل وکرما سنگھے نے نئے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ لیکن سری لنکا میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں۔ بی بی سی کی ایک اور رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے صدر گوتابایا راجا پکشے کے آبائی گھر کو نذر آتش کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پھیلنے والے پرتشدد واقعات کے دوران فائرنگ میں ایک موجودہ رکن پارلیمنٹ سمیت کل پانچ افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور پرتشدد جھڑپوں میں 190 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
اسی کے پیش نظر سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی جا رہی ہے۔ جس سے متعلق دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو سری لنکا میں حالیہ تشدد کے دوران ہجوم نے جن وزراء کو برہنہ کر کے زد و کوب کیا ہے اس کی یہ ویڈیو ہے۔
Fact Check/Verification
وائرل ویڈیو میں برہنہ کر کے زد و کوب کئے جا رہے لوگوں کی سچائی جاننے کے لیے ٹویٹر پر ‘سری لنکا احتجاج’ کیورڈ تلاشنے پر 10 مئی 2022 کو شیئر شدہ لوسییس نامی ایک ٹویٹر صارف کا پوسٹ ملا۔ اس ٹویٹ میں وہی ویڈیو تھی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ ٹویٹ کے ساتھ دی گئی جانکاری کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ بتا رہے ہیں کہ وہ قیدی ہیں اور انہیں 10 مئی کو مظاہرین پر حملہ کرنے کے لئے لایا گیا تھا۔
اس کے علاوہ، ہم نے گوگل پر’قیدی سری لنکا’ کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں 11 مئی 2022 کو سری لنکا کے معروف اخبار ڈیلی میرر کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ایک ٹویٹ موصول ہوا۔ ٹویٹ میں اس ویڈیو کے سلسلے میں لکھا ہے کہ یہ ویڈیو کچھ قیدیوں کی ہے، جنہیں مظاہرین پر حملہ کرنے کے لیے لایا گیا تھا۔ ڈیلی میرر کی جانب سے ٹویٹ کی گئی ویڈیو اور وائرل ویڈیو دونوں ایک ہی طرح کے ہیں۔
نیوز چیکر نے سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے شائع ہونے والے اخبار ویراکیسری کے صحافی تھانوجاہ ناگاراجہ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا، “وائرل ویڈیو میں نظر آنے والے لوگ سری لنکا کے وزیر یا لیڈر نہیں ہیں۔ یہ لوگ قیدی ہیں جو سنہلی زبان میں بتا رہے ہیں کہ انہیں مظاہرین پر حملہ کرنے کے لیے کولمبو لایا گیا تھا۔ اب اس سے واضح ہوا کہ برہنہ کر کے زد و کوب کئے جا رہے لوگ قیدی ہیں، ناکہ سری لنکا کے وزراء۔
تحقیقات کے دوران 12 مئی 2022 کو دی پرنٹ پر شائع شدہ ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سری لنکا کے جیل حکام نے ان الزامات کی تحقیقات شروع کر دی ہے، جس میں ملک کے ایک جیل کیمپ کے قیدیوں کو کولمبو میں حکومت مخالف مظاہرین پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ‘دی پرنٹ’ نے ‘نیوز فَسٹ‘ ویب سائٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جیل کمشنر جنرل تشارا اپلدینیا نے کہا ہے کہ سری لنکا کی جیل حکام نے ان ملزموں کی تحقیقات شروع کی ہے۔ جن میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کولمبو میں مظاہرین پر حملہ کرنے کے لئے ‘واتریکا’ اوپن پریژن کیمپ کے قیدیوں کے ایک گروپ کا استعمال کیا گیا تھا۔
Conclusion
اس طرح ہماری تحقیقات میں یہ واضح ہوا کہ جس ویڈیو سے متعلق صارفین کا دعویٰ ہے کہ سری لنکا میں حالیہ تشدد کے دوران ایک بھیڑ کی جانب سے وزراء کو برہنہ کر کے زد و کوب کیا جا رہا ہے، دراصل وہ لوگ سری لنکا کے وزیر یا لیڈر نہیں ہے بلکہ قیدی ہیں۔ تاہم، ہم آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر تے ہیں کہ ویڈیو میں موجود نیم برہنہ مردوں کو کیوں مارا پیٹا جا رہا ہے۔
Result: Misleading/Partly False
Our Sources
Tweet by Lucias on May 10, 2022
Tweet by Daily Mirror on May 10, 2022
Telephonic Conversation with Srilankan Journalist Thanujah Nagarajah On May 17, 2022
Report Published by The Print on May 12, 2022
نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.