ہفتہ, اپریل 20, 2024
ہفتہ, اپریل 20, 2024

ہومFact Checkسرینگر میں یاسین ملک کی سزا کے خلاف مظاہرے کی نہیں ہے...

سرینگر میں یاسین ملک کی سزا کے خلاف مظاہرے کی نہیں ہے یہ تصویر

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

اپڈیٹ: اس آرٹیکل کو نئی معلومات کے ساتھ اپڈیٹ کیا گیا ہے۔

ایک بار پھر سے درج ذیل میں موجود تصویر کو مارچ 2023 میں لاہور زمان پارک کا بتاکر سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ تصویر مئی 2022 میں یاسین ملک کی حمایت میں کئےگئے احتجاج کابتاکر شیئر کیا گیا تھا۔

Courtesy:FB/ Burewala News Updates Official

سوشل میڈیا پر سڑکوں پر بھیڑ کی ایک تصویر کو سرینگر میں یاسین ملک کی سزا کے خلاف مظاہرے کا بتا کر شیئر کیا جا رہا ہے۔ ٹویٹر پر ایک صارف نے تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ “ملک یاسین کی سزا کے خلاف سرینگر میں احتجاج، یہ آزادی کی جنگ جو کشمیری لڑ رہے ہیں”۔

سرینگر میں یاسین ملک کی سزا کے خلاف مظاہرے کی نہیں ہے یہ تصویر
Courtesy:@M_RG69

ای ٹی وی بھارت اور ڈی ڈبلیو اردو کے مطابق ٹیرر فنڈنگ معاملے میں کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو 25 مئی 2022 بروز بدھ کو نئی دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں سخت سکیورٹی کے ساتھ پیش کیا گیا۔ عدالت نے انہیں یو اے پی اے اور انڈین پینل کوڈ کی دفعات ‘120بی اور 124اے’ کے تحت عمر قید کی سزا و 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ یاسین ملک کی سزا کی مخالفت میں حامیوں نے وادی کشمیر میں جزوی ہڑتال کی۔ اسی کے پیش نظر سوشل میڈیا پر یاسین ملک سے جوڑ کر طرح طرح کے پوسٹ شیئر کئے جا رہے ہیں۔

ان دنوں فیس بک اور ٹویٹر پر ایک تصویر کو سرینگر میں یاسین ملک کے سزا کے خلاف کئے گئے احتجاج کا بتاکر شیئر کیا جا رہا ہے۔ تصویر سے متعلق صارفین کا دعویٰ ہے کہ “یہ تصویر علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کی سزا کے خلاف سرینگر میں کئے گئے مظاہرے کی ہے” اور کچھ صارفین نے لکھا ہے کہ یہ تصویر یاسین ملک کی رہائی کے لئے کئے گئے احتجاج کی ہے۔

Fact Check/Verification

سرینگر میں یاسین ملک کی سزا کے خلاف مظاہرے کی بتاکر شیئر کی گئی تصویر کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے اس کو ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں ووکس اور ای لائٹ ڈیلی نیوز ویب سائٹ پر ہوبہو وائرل تصویر کے ساتھ شائع 2018 کی خبریں ملیں۔ اس خبر میں تصویر کا کریڈٹ شینن فینی/ گیٹی امیجز کو دیا گیا ہے۔ تصویر کے ساتھ شائع خبر کے مطابق واشنگٹن ڈی سی میں مارچ کیا گیا تھا۔ جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی تھی۔

Courtesy:Vox

مذکورہ معلومات سے متعلق گیٹی امیجز پر وائرل تصویر کو تلاشنا شروع کیا۔ جہاں ہمیں 24 مارچ 2018 کو شائع شدہ تصویر ملی۔ جس میں دی گئی جانکاری سے معلوم ہوا کہ یہ تصویر “واشنگٹن ڈی سی میں 24 مارچ 2018 کو نکالی گئی “آور لیوز ریلی” کی ہے۔ جس میں عام لوگوں کے علاوہ مشہور شخصیات نے بھی شرکت کی تھی”۔ اس کے علاوہ سرینگر میں یاسین ملک کی سزا کے خلاف مظاہرے کا بتاکر شیئر کی گئی تصویر کے ساتھ شائع دی گلوب اینڈ میل اور بزنس اسٹنڈر پر شائع خبریں بھی ملیں۔ جس میں سڑکوں پر جمع بھیڑ کی تصویر کو واشنگٹن ڈی سی میں ہوئے ریلی کا بتایا گیا ہے۔ رپورٹس سے واضح ہوا کہ اس تصویر کا تعلق یاسین ملک اور سرینگر سے بالکل نہیں ہے۔

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ جس تصویر کو سرینگر میں یاسین ملک کی سزا کے خلاف مظاہرے کا بتاکر شیئر کیا جا رہا ہے، وہ دراصل 2018 کی ہے اور واشنگٹن ڈی سی میں ہوئے “آور لیوز ریلی” میں شریک ہوئے لوگوں کی ہے۔

Result: False Context/False

Our Sources

Report Published by Elitedaily.com on 26 march 2018
Report Published by Vox.com on 24 march 2018
Image Published by GettyImages on 24 march 2018
Report Published by theglobeandmail.com on 25 march 2018
Report Published by business-standard.com 25 march 2018

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular