Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میڈیا پر عربی کیپشن کے ساتھ 30 سیکینڈ کے ویڈیو کو کشمیری مسلم کے سرعام قتل کا بتا کر شیئر کیا جا رہا ہے۔ صارفین نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا ہے کہ”كشمير تذبح المسلمين في الهند الان”۔ اس ویڈیو کو صارفین ہیش ٹیگ “انقذوا_مسلمي_كشمير” کے ساتھ بھی شیئر کر رہے ہیں۔
حال کے دنوں میں جموں کشمیر کے کئی علاقوں میں فوجیوں اور ملیٹنٹوں کے مابین تصادم پیش آیا تھا۔ جس میں 6 فوجی جوان شہید ہو گئے تھے۔ وہیں کشمیری مسلم کے حوالے سے ان دنوں عربی کیپشن کے ساتھ پرانے ویڈیو اور تصاویر کو گمراہ کن دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک ویڈیو خوب گردش کر رہا ہے۔ جس میں پولس عوام پر بے تحاشا لاٹھی برسا رہی ہے۔ صارفین کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو کشمیری مسلم کے سرعام قتل کا ہے۔ جبکہ ویڈیو کی سچائی کچھ اور ہے۔
فیس بک پر وائرل پوسٹ کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔
کراؤڈ ٹینگل پر جب ہم نے “كشمير تذبح المسلمين في الهند الان” سرچ کیا تو ہمیں پتا چلا کہ اس موضوع پر محض 24 گھنٹوں میں 25,730 فیس بک صارفین تبادلہ خیال کر چکے ہیں۔
Fact Check/ Verification
کشمیری مسلم کے سرعام قتل کے حوالے سے وائرل ویڈیو کی سچائی جاننے کے لئے سب سے پہلے ہم نے ویڈیو کو اویسم اسکرین شارٹ کی مدد سے کیفریم میں تقسیم کیا۔ پھر ہم نے ان میں سے کچھ فریم کو ریورس امیج سرچ کیا۔ لیکن کچھ بھی اطمینان بخش نتائج نہیں ملے۔
پھر ہم نے کچھ کیورڈ کی مدد سے یوٹیوب پر سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں سوشل میڈیا نیوز نامی یوٹیوب چینل پر 31 دسمبر 2019 کو اپلوڈ شدہ وائرل ویڈیو سے ملتا جلتا ایک ویڈیو ملا۔ جس میں اس ویڈیو کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کر رہے لوگوں اور پولس کے درمیان جھڑپ کا بتایا گیا ہے۔
سرچ کے دوران یوٹیوب پر ایک اور ویڈیو ملا۔ جس کے 2منٹ ایک سیکینڈ سے 2منٹ 26 سیکینڈ تک وائرل ویڈیو جیسا منظر دیکھنے کو ملا۔ جسے دیکھنے کے بعد پتا چلا کہ وائرل یڈیو میں جو لوکیشن نظر آرہا ہے وہی اس ویڈیو میں بھی ہے، لیکن اس ویڈیو میں سارا کچھ صاف صاف ہے، مگر ویڈیو کہاں کی ہے، یہ واضح نہیں ہو سکا۔۔
مذکورہ ویڈیو کو جب ہم نے غور سے دیکھا تو لال رنگ کے بورڈ والی دوکان نظر آئی۔ پھر ہم نے مزید کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں ویڈیو سے متعلق ٹی وی9 کنڑ اور نیوز یوپی اتراکھنڈ کے یوٹیوب چینل پر خبریں ملیں۔ ان رپورٹس کے مطابق وائرل ویڈیو اترپردیش کے گورکھپور کا ہے۔ جہاں شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کر رہے مظاہرین اور پولس کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔ اس کا کشمیر مسلم پر ہو رہے ظلم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
مذکورہ سرچ کے دوران ملے ثبوت کو غور سے دیکھا تو ہمیں ماں ویشنو اسٹیشنرس کا بورڈ نظر آیا۔ ہم نے جب اس نام کو گوگل میپ پر سرچ کیا تو وہی بورڈ والی دوکان ملی، جو وائرل ویڈیو میں دھندھلا سا نظر آرہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وائرل ویڈیو کشمیر کا نہیں ہے۔ آپ درج ذیل میں فوٹوشاپ کے ذریعے کئے گئے فرق سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ویڈیو کے ساتھ کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
Conclusion
نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے وائرل ویڈیو کشمیری مسلم کے سرعام قتل کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ویڈیو 2019 کا ہے اور اس ویڈیو میں نظر آ رہا منظر شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کر رہے لوگوں پر پولس کی کاروائی کا ہے۔
Result: Misleading
Our Sources
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.