جمعہ, اپریل 26, 2024
جمعہ, اپریل 26, 2024

ہومUncategorized @urمسلم نوجوان نے ناگاسادھو کی پٹائی کی؟کیا ہے سچ؟پڑھیئے ہماری پڑتال

مسلم نوجوان نے ناگاسادھو کی پٹائی کی؟کیا ہے سچ؟پڑھیئے ہماری پڑتال

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

دعویٰ

مارنے والا مسلم اور مار کھانے والا ایک سادھو۔۔۔!اگر اچھے سے وائرل ہوا تو ۳دن کے اندر ہاتھ جوڑتا ہوا نظر آئے گا۔

تصدیق

ان دنوں سوشل میڈیا پر سادھو کی پٹائی کا ایک ویڈیو خوب گردش کررہا ہے۔دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ناگاسادھو کو مسلم نوجوان بے وجہ مار پیٹ رہا ہے۔اس ویڈیو کو واہٹس ایپ ،ٹویٹر اور فیس بک پر متعدد یوزرس نے شیئر کیےہیں۔پرمودیادو نے چودہ مئی دوہزار بیس کو رات کے دس بج کر انچاس منٹ پر اس ویڈیو کو مذکورہ دعوے کے ساتھ اپنے فیس بک آئیڈی پر شیئر کیاتھا۔جسے ۱۳سو لوگوں نے دیکھا ہے۔جبکہ ہمارے آرٹیکل لکھنے تک پچیس سو لوگوں نے اس ویڈیو کو شیئر بھی کردیا تھا۔ہم نے احتیاطاً اس پوسٹ کو آرکائیو بھی کرلیا۔حالانکہ ہمارے ایک قاری نے بھی اس ویڈیو کی سچائی جاننے کی اپیل کی ہے۔

ہماری کھوج

وائرل ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات شروع کی۔سب سے پہلے ہم نے وائرل ویڈیو کی سچائی تک جانے کے لئے ٹویٹرایڈوانس سرچ کا سہارا لیا۔جہاں ہمیں دوہزاراٹھارہ کے پرانے پوسٹ ملے۔جن میں وائرل کیپشن کے ساتھ ہوبہو وائرل ویڈیو ملا۔پھر ہم نے ایک بار اور ٹویٹر ایڈوانس سرچ کیا۔اس دوران ہمیں دہرادون ایس ایس پی نامی ٹویٹرہینڈل پر وائرل ویڈیو ملا۔جس میں انہوں نے صاف طور لکھا ہے سوشل میڈیا پر جس شخص کو ناگاسادھو بتاکر لوگ وائرل کررہے ہیں اور الزام لگا رہے کہ مسلم نوجوان ناگاسادھو کومارپیٹ رہا ہے۔وہ دراصل ایک بہروپیا ہے اور اس وقت وہ ناگابابا کی شکل اختیار کئے ہوا ہے۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ نشے کی دھت میں ناگاسادھو کے شکل والا شخص لڑکی کے ساتھ چھیڑکھانی کررہا تھا۔جس کی وجہ سے لڑکی کے اہل خانہ نے اس کی پٹائی کی تھی۔

مذکورہ ٹویٹس سے واضح ہوچکا کہ وائرل ویڈیو دوسال پرانا ہے۔لیکن ایس ایس پی کا ٹویٹرہینڈل پر بلوٹک نہ ہونے کی وجہ ذرا مشکوک سا لگا۔لہٰذا ہم نے اس ویڈیو کی تحۡقیق مزید باریکی سے کرنا بہتر سمجھا۔اس لئے ہم نے انوڈ کی مدد سے کچھ کیفریم نکالا اور اسے گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔جہاں ہمیں اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔پھر ہم نے کچھ کیورڈ سرچ کیا۔تب ہمیں دی پرنٹ اور یوٹیوب کے کچھ لنک فراہم ہوئے۔جب ہم نے اس پر کلک کیا تو پتا چلا یہ ویڈیو پہلے بھی وائرل ہوچکا ہےوی کے نیوز کے مطابق یہ ویڈیواتراکھنڈ کے دہرادون کا ہے۔دی پرنٹ کے مطابق اس ویڈیو کو آسٹریلیا کے امام توحیدی نے بھی شیئر کیا تھا۔پرنٹ کے مطابق وائرل ویڈیو چوبیس اگست کا ہے  اور ویڈیو میں سادھو کی پٹائی کررہا شخص ہندو ہے۔

ان سبھی ریسرچ کے باوجود ہمیں تسلی نہیں ملی تو ہم نے یوٹیوب پر مزید کیورڈ سرچ کیا۔اس دوران ہمیں للن ٹاپ کا ایک پڑتال ملا۔جوچارستمبردوہزاراٹھارہ کو اپلوڈ کیاگیا تھا۔جس میں صاف طورپر سوربھ تیوار کہہ رہے ہیں کہ وائرل ویڈیو میں نظر آرہا ناگابابا نہیں وہ دراصل بہروپیا ہے۔وہ ایک لڑکی کو چھیڑ رہاتھا۔تبھی لڑکی کے بھائی نے اس کی اچھے سے پٹائی کی۔یہاں یہ بھی بتادوں کہ سادھو کی پٹائی کررہا شخص مسلم نہیں ہےبلکہ ہندو ہے۔واضح رہے کہ اس ویڈیو کو مختلف دعوے کے ساتھ گذشہ سال مشہورہستیاں بھی شیئر کیاتھا۔جس کے بعد نیوزچینلوں نے اس کی سچائی عوام کے سامنے پیش کیاتھا۔

نیوزچیکر کی تحقیقات میں ثابت ہوتا ہےکہ وائرل ویڈیو دوسال پرانا ہے۔اس ویڈیو میں سادھو کو مارہا شخص مسلم نہیں ہےبلکہ ہندو ہے۔مذہبی رخ دے کر دوسال پہلے بھی اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر امام توحیدی جیسے لوگ بھی شیئر کئے تھے۔

ٹولس کا استعمال

انوڈ سرچ

ریورس امیج سرچ

کیورڈ سرچ

یوٹیوب سرچ

ٹویٹر اور فیس بک ایڈوانس سرچ

نتائج:گمراہ کن/پراناویڈیو

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویزکے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔۔

 9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular