جمعہ, اپریل 19, 2024
جمعہ, اپریل 19, 2024

ہومFact Checkسر میں لگی گولی کے باوجود زندہ عراقی شخص کو فلسطین کا...

سر میں لگی گولی کے باوجود زندہ عراقی شخص کو فلسطین کا بتا کر کیاجارہاہے شیئر

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

ہمارے واہٹس ایپ بوٹ پر ایک قاری نے تین تصاویر تصدیق کی غرض بھیجا ہے۔تصویر کے کیپشن میں لکھا ہوا ہے کہ “یہ شخص فلسطین مسجد اقصی میں نماز ادا کررہاتھا،تبھی اسرائیلی فوجی نے اس پر گولی چلا ئی۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گولی اندر نہیں گئی بلکہ ٹوپی میں پھنس گئی”اگر بلکل ایسا ہی ہےاللہ کی قدرت تو پھر ایک بار ( سبحان اللہ و اللہ اکبر )

وائرل تصویر فیس بک پر بھی کیاگیا ہے شیئر

عمران پرنس نامی فیس بک یوزر نے اس تصویر کو شیئر کیا ہے۔جس میں مذکورہ کیپشن بھی لکھا ہوا ہے۔اس پوسٹ کو 446 یوزرس نے شیئر کیا ہے۔جبکہ 1300 لائک کیا ہے۔

عمران کے پوسٹ کا آرکائیو لنک۔

Fact check / Verification

ہم نے وائرل تصویر کو سب سے پہلے فیس بک ایڈوانس سرچ کی مدد سے کچھ کیورڈ سرچ کیا تو پتاچلا کہ اس تصویر کو 2سال پہلے بھی اسی دعوے کے ساتھ شیئر کیا جاچکا ہے۔

وائرل تصویر کو جب ہم نے ریورس امیج سرچ کی مددسے گوگل کیورڈ کیا تو ہمیں اسرائیلی کول نامی ویب سائٹ پر شائع 24مارچ 2019 کی ایک خبر ملی۔جس کے مطابق وائرل تصویر میں نظر آرہاشخص عراق کا ہے اور اس کا نام شیخ محمد عبید الراوی ہے۔

شیخ محمد عبید الراوی کی سر میں لگی گولی “اس کیورڈ کو ہم نے انگلش میں سرچ کیا تو ہمیں وائرل تصویر سے متعلق 13اگست 2014 کو شائع کی گئی9نیوز پر ایک خبر ملی۔جس کے مطابق عراق کے فلوجا مسجد میں عشاء کی نماز پڑھ کر شیخ محمد عبید الروی باہر نکلے تو عراقی اور قبائلی فوجیوں کے بیچ جھڑپ ہورہی تھی۔جب وہاں سے انہوں نے بچ کر نکلنا چاہا تو اچانک گولی آکر ان کے سرپر لگی۔لیکن انہیں وقتی کچھ بھی محسوس نہیں ہوا۔

رپوٹ کے مطابق گولی ان کے سر کے اندر تقریبا۵سینٹی میٹر تک اندر چلی گئی تھی۔کچھ دیر بعد جب انہیں تکلیف ہوئی تو وہ اسپپال میں علاج کےلیے پہنچے۔جب ہم نے مسجد کے نام کو گوگل میپ پر سرچ کیا تو پتا چلا کہ واقعی اس نام کی مسجد عراق شہر میں ہے۔

دوسری جانب جب ہم نے شیخ محمد عبید الراوی کو اردو اور عربی کیورڈ سرچ کیاتو ہمیں العربیہ ڈاٹ نیٹ ،الوطن اور تواصل نامی عربی نیوز ویب سائٹ پر شائع 2014 کی خبریں ملیں۔جس میں کہیں مسجد الاقصی یا فلسطین کا ذکر نہیں ہے۔بلکہ ہر جگہ شیخ محمد عبید کو عراق کا بتایاگیا ہے۔

Conclusion

نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثا ت ہوتا ہے کہ وائرل تصویر کم سے کم 6سال پرانی ہے اور اس تصویر کا مسجد اقصیٰ یا اسرائیلی فوج سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔بلکہ یہ تصویر عراق کے شیخ محمد عبید الراوی نامی شخص کی ہے۔جنہیں مسجد سے باہر نکلتے وقت سر میں گولی لگی تھی۔

Result: Misplaced Context

Sources

Israellycool:https://www.israellycool.com/2019/03/24/the-latest-libel-that-we-need-like-a-hole-in-the-head/

9News:https://www.9news.com.au/world/man-left-with-bullet-in-head-after-shootout/79103e23-e115-4c3b-990d-3a6fc1403ad6

Alwatan:https://www.elwatannews.com/news/details/537452

Alarabiya:https://www.alarabiya.net/ar/arab-and-world/iraq/2014/08/10/%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D9%83%D8%A7%D9%8A%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%81%D9%84%D9%88%D8%AC%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%B0%D9%8A-%D9%81%D8%B4%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%B1%D8%B5%D8%A7%D8%B5-%D8%A8%D8%A7%D8%AE%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D9%82-%D8%B1%D8%A3%D8%B3%D9%87.html

Twasul:https://twasul.info/83365/%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%B5%D9%88%D8%B1-%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D9%82%D9%8A-%D9%8A%D8%B9%D9%8A%D8%B4-%D8%A8%D8%B1%D8%B5%D8%A7%D8%B5%D8%A9-%D9%81%D9%8A-%D8%B1%D8%A3%D8%B3%D9%87/

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

 9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular