Friday, March 14, 2025
اردو

Crime

پاکستانی میں افغانستانی سفیر کی بیٹی کے نام پر ٹک ٹاک انفلوئینسر کی تصویر فرضی دعوے کے ساتھ ہوا وائرل

banner_image

سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی تصویر شیئر کی جا رہی ہے۔ یوزرس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر نجیب اللہ کی بیٹی اغوا اور تشدد کے بعد رہا کردی گئی ہے۔

افغانستان کے سفیر کی بیٹی کے حوالے سے وائرل پوسٹ کا اسکرین شارٹ
افغانستان کے سفیر کی بیٹی کے حوالے سے وائرل پوسٹ کا اسکرین شارٹ

کئی نیوز ویب سائٹ نے بھی اسی تصویر کے ساتھ خبریں شائع کی ہیں اور اس خاتون کو افغانستان کے سفیر کی پاکستان میں اغوا ہوئی بیٹی بتایا ہے۔

وائرل تصویر کے ساتھ شائع میڈیا رپورٹس کو یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

مذکورہ دعوے والے پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں دیکھیں۔

سوشل میڈیا پر اکثر ایسے پوسٹ وائرل ہوتے رہتے ہیں ، جہاں کسی اور کی تصویر یا ویڈیو کو کسی اور شخص کے نام پر شئیر کیا جاتا ہے۔ ہم پہلے بھی اس طرح کے مختلف دعوؤں کا فیکٹ چیک کر چکے ہیں۔

Fact Check/Verification

مذکورہ دعوے کی حقیقت جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے تصویر کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ جہاں ہمیں ایک یوٹیوب ویڈیو ملا۔ اس ویڈیو میں تصویر میں نظر آ رہی لڑکی کوپاکستان کی معروف ٹک ٹاک انفلوئینسر گل چاہت بتایا گیا ہے نا کہ پاکستان میں اغوا ہوئی افغانستان کے سفیر کی بیٹی۔

اسی یوٹیوب ویڈیو کی مدد سے ہم نے کچھ گوگل کیورڈ سرچ کیا۔ تب ہمیں گل چاہت کا ٹک ٹاک اکاونٹ ملا۔ اس اکاونٹ سے ملی جانکاری کے مطابق وائرل تصویر میں نظر آرہی لڑکی پاکستان کی ایک خواجہ سرا، سماجی کارکن اور سوشل میڈیا انفلوئینسر بتایا گیا ہے۔ حالانکہ ہمیں گل چاہت کے ٹک ٹاک اکاونٹ پر وائرل تصویر سے متعلق کوئی خاص معلومات حاصل نہیں ہوئی۔

اس کے بعد ہم نے مزید کچھ کیورڈ کی مدد سے گل چاہت کی فیس بک پروفائل کو تلاشا، جہاں ہمیں ایک پوسٹ ملا ۔ اس پوسٹ میں پاکستان میں اغوا شدہ افغانستان کے سفیر کی بیٹی والے دعوے کے ساتھ وائرل تصویر بھی موجود تھی۔

سرچ کے دوران ہمیں گل چاہت کے فیس بک پروفائل پر ایک ویڈیو ملا، جس میں وہ پشتو زبان میں کچھ بولتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ بتا دوں کہ یہ 16 جولائی کا ایک لائیو ویڈیو شیئر کیا تھا، جس میں ان کے چہرے پر چوٹ اور خون دیکھا جا سکتا ہے۔ اس فیس بک ویڈیو سے اتنا تو ظاہر ہو گیا کہ وائرل تصویر میں موجود لڑکی گل چاہت ہی ہیں۔

اس کے بعد ہمیں ڈون، پنک نیوز ، ٹائمس آف انڈیا اور ڈیلی پاکستان پر شائع رپورٹس بھی ملیں، جن میں گل چاہت کا ذکر کرتے ہوئے یہ معلومات دی گئی ہے کہ پاکستان میں خواجہ سرا ایکٹیوسٹ اور کمیونٹی کے ساتھ پچھلے کچھ برسوں میں کئی بار حادثے رونما ہو چکے ہیں۔ خواجہ سراکمیونٹی اس مسئلے پر اپنا اختلافات پہلے بھی درج کرا چکی ہے۔

پھر ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر کی بیٹی کی اغوا کی خبر میں کتنی سچائی ہے۔ اس کے لئے ہم نے سب سے پہلے کچھ کیورڈ سرچ کیا۔ جہاں ہمیں بی بی سی، سی این این، اور این ڈی ٹی وی کئی میڈیا رپورٹس ملیں، جن سے یہ واضح ہو گیا کہ پاکستان میں افغانستان کے سفیر نجیب اللہ علی خیل کی بیٹی سلسلہ علی خیل کو اغوا کیا گیا تھا، حالانکہ بعد میں انہیں چھوڑ بھی دیا گیا تھا۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر کی بیٹی نہیں ہے وائرل تصویر میں نطر آ رہی لڑکی

ہمیں پاکستان میں افغانستان کے سفیر نجیب اللہ علی خیل کے شیئر کردہ کچھ ٹویٹس ملے، جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کی تصویر شیئر کر غلط تصویریں شیئر نا کرنے کی اپیل کی ہے۔ ساتھ ہی ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے اپنی بیٹی کے گھر لوٹنے کی بھی جانکاری دی ہے۔

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ بات واضح ہو تا ہے کہ وائرل تصویر میں نظر آ رہی لڑکی، حال ہی میں اغوا ہونے کے بعد واپس اپنے گھر پہنچی افغانستانی سفیر کی بیٹی نہیں بلکہ پاکستان کی ایک خواجہ سرا سماجی کارکن اور معروف ٹک ٹاک انفلوئینسر گل چاہت ہیں۔

Result: Misleading

Our Sources

Gul Chahat’s Facebook Post & Video

Media Reports

Tweet by Najibullah Alikhil

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

9999499044

image
اگر آپ کسی دعوے کی جانچ کرنا چاہتے ہیں، رائے دینا چاہتے ہیں یا شکایت درج کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں واٹس ایپ کریں +91-9999499044 یا ہمیں ای میل کریں checkthis@newschecker.in​. آپ بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
About Us

Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check

Contact Us: checkthis@newschecker.in

17,450

Fact checks done

FOLLOW US
imageimageimageimageimageimageimage
cookie

ہماری ویب سائٹ کوکیز استعمال کرتی ہے

ہم کوکیز اور مماثل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مواد کو شخصی بنایا جا سکے، اشتہار کو ترتیب دی جا سکے، اور بہتر تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ 'ٹھیک ہے' پر کلک کرکے یا کوکی ترجیحات میں ایک اختیار کو آن کرنے سے، آپ اس پر متفق ہوتے ہیں، جیسا کہ ہماری کوکی پالیسی میں وضاحت کے طور پر ہوا ہے۔