Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میدیا پر 45 سیکینڈ کے ایک ویڈیو کو مذہبی رنگ دے کر خوب شیئر کیا جا رہا ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ دنوں پہلے بھارتی پروڈکٹ کا بائیکاٹ ہیش ٹیگ بھی ٹویٹر پر ٹرینڈ کرایا گیا۔ ویڈیو میں کچھ لوگ لاٹھی ڈنڈوں سے جینس اور سفید شرٹ پہنے شخص کی پٹائی کر رہے ہیں اور برقعہ پہنے ہوئی خاتون اسے بچا رہی ہے۔ اس ویڈیو کو مختلف زبانوں میں بھی الگ الگ دعوے کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
آسام واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ملک و بیرون ممالک کے صارفین ہیش ٹیگ “مقاطعةالمنتجاتالهندية“کے ساتھ طرح طرح کے ویڈیو اور تصاویر شیئر کر رہے ہیں۔ ان دنوں 45 سیکینڈ کے ویڈیو کو آسام واقعے اور مذہبی رنگ دے کر فارسی، عربی اور انگلش زبانوں میں شیئر کیا جا رہا ہے۔ درج ذیل میں وائرل پوسٹ اور ان کے آرکائیو لنک موجود ہیں۔
وائرل پوسٹ کے آرکائیو لنک یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیں۔
Fact Check/Verification
ویڈیو کو مذہبی رنگ دے کر شیئر کیا گیا ہے۔ جس کی سچائی جاننے کے لئے ہم اپنی ابتدائی تحقیقات کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ہم نے ویڈیو کو انوڈ کی مدد سےکیفریم میں تقسیم کیا اور ان میں سے کچھ فریم کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ لیکن کچھ بھی اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔
پھر ہم نے کچھ کیورڈ سرچ کیا۔ جہاں ہمیں سرچ کے دوران پرشانت شکلا نام کے ٹویٹر ہینڈل پر 6 جولائی 2020 کا ٹویٹ ملا۔جس میں اس ویڈیو کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ ویڈیو آپسی رنجش کا ہے۔ پرشانت نے اپنے اس ٹویٹ میں اہل خانہ کے ایک ممبر کا ویڈیو بائٹ بھی شیئر کیا تھا۔ جس میں وہ شخص ملزمین کے نام چرکو، راجو، قسمت علی، سلیم اور سونو بتا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس جھڑپ کے دوران خواتین سمیت خاندان کے کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔
کیا ہے وائرل ویڈیو کو مذہبی رنگ دینے کی سچائی؟
مذکورہ ٹویٹ سے واضح ہو چکا کہ وائرل ویڈیو پرانا ہے اور آسام واقعے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر ہم نے ٹویٹر ایڈوانس سرچ کی مدد سے کیورڈ سرچ کیا۔ جہاں سدھارتھ نگر پولس کا ایک ری ٹویٹ ملا۔ جس میں پولس نے واضح کیا تھا کہ تھانہ ایٹوا میں اس معاملے سے متعلق مقدمہ درج کر تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن اس ویڈیو میں مذہبی رنگ ہے یا نہیں اس بارے میں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
یو پی کانگریس کے ٹویٹ کے جواب میں سدھارتھ نگر پولس کا ایک اور ری ٹویٹ ملا۔ جس میں صاف طور پر پولس اہلکار یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ یہ ویڈیو دو پڑوسیوں کے بیچ آپسی رنجش کا ہے۔ اس جگڑے کی شروعات بچوں سے ہوئی تھی، جس میں بعد میں بڑے بھی شامل ہو گئے۔ اس معاملے میں پولس نے تین افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔ پولس کی اس بیان سے پتا چلا کہ وائرل ویڈیو کو مذہبی رنگ دے کر شیئر کر نا سرا سر غلط ہے۔
نیوز ویب سائٹ جاگرن نے بھی اس واقعے کے بارے میں خبر شائع کی تھی۔ جسے آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا آسام میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں جلائی گئی مسجد کی ہے یہ تصویر؟
Conclusion
نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل ویڈیو کا آسام واقعے اور مذہبی رنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ دراصل یہ معاملہ یوپی کے ایٹوا کا ہے اور دو پڑوسیوں کے درمیان آپسی جھگڑے کا ہے۔
Result: Misleading
Our Sources
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.