Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
دعویٰ
دہلی کے روہینگیا پناہ گزیں سڑک کنارے رہتا ہے۔ جس کی تین بیویاں،جن میں دوحاملہ ہیں اور ان کے آٹھ بچے ہیں۔ساتھ ہی ان کے پاس سیمسنگ ۷ سی ۷ پرو موبائل فون ہے۔جس کی قیمت انتیس ہزار روپے ہے۔ہمیں اس کی زندگی میں خوشیاں لانی ہیں۔اس لئےوقت پر ٹیکس دیجئے۔
تصدیق
سوشل میڈیا پر ایک تصویر خوب گردش کررہی ہے۔جن میں ایک نیم برہنہ شخص چارپائی پر بیٹھا ہے۔جس کے ارد گرد کچھ بچے بھی نظر آرہے ہیں۔دعویٰ کیا جارہاہے کہ یہ شخص روہینگیائی ہےاور دہلی میں روڈ کنارے رہتا ہے۔جس کی ۳بیویاں سمیت آٹھ بچے بھی ہیں۔اتنا ہی نہیں اس شخص کے پاس۲۹ ہزار کا ایک موبائل فون بھی ہے۔اس تصویر کو دیگر سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم پر بھی شیئر کیا گیا ہے۔
दिल्ली में एक लाचार, बेसहारा गरीब असहाय रोहिंग्या जिसके पास खाने को पहनने को कुछ नहीं अगर इसके पास है तो सिर्फ 7-8 बच्चे तीन बीवियां जिसमे से दो गर्भवती है और एक सस्ता घटिया सा सैमसंग 7 फ़ोन C7 pro – 30000 रुपये वाला
ऐसे कितने भी हैं हमारे देश में की सरकार के मुफ्त में रहते हैं pic.twitter.com/67v3U714n6
— ♚ тαимαу ραтєℓ♚ 150K (@TanmayNPatel) June 8, 2019
ہماری کھوج
سوشل میڈیا پر روہنگیاپناہ گزینوں کی وائرل تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوے کو پڑھنے کے بعد ہم نے اپنی تحقیقات شروع کی۔سب سے پہلے ہم نے وائرل تصویر کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔جہاں ہمیں ریڈیو پاکستان کے نیوز ویب سائٹ پر شائع ایک خبر ملی۔جس میں وائرل تصویر بھی دیکھنے کو ملی۔جب ہم نے پوری خبر پر نظر ثانی کی تو وائرل تصویر کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا ہواملا۔البتہ یہ ضرور لکھا تھا کہ ” اقوام متحدہ نے اپیلوں کے باوجود سات روہنگیا مسلمانوں کو میانمار واپس بھیجنے کے بھارتی فیصلے پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے۔جس سے ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے”
مذکورہ بالا خبر سے ملی جانکاری سے واضح ہوا کہ وائرل تصویر روہنگیاپناہ گزیںوں کی ہے۔لیکن یہ نہیں پتا چل سکا کہ وائرل تصویر آیا دہلی کی ہے یا کہیں اور کی۔پھر ہم نے وائرل تصویر کو ین ڈیکس پر سرچ کیا۔جہاں ہمیں نیوزایٹین انگلش پر وائرل تصویر ملی ۔جسے اٹھارہ جنوری دوہزار انیس کوایک خبر کے ساتھ شائع کیاگیا تھا۔لیکن اس خبر میں بھی وائرل تصویر کو فائل فوٹوقرار دیا گیا ہے۔اس دوران ہم نے گوگل کیورڈ سرچ کیا۔تب ہمیں نیوزایٹین کی ایک اور خبر ملی۔جو پندرہ اپریل دوہزار اٹھارہ کو شائع کی گئی تھی۔خبر کے مطابق دہلی کے جیت پور کنچن کنج میں رہ رہے روہنگیاں مسلمانوں کی جگیوں میں دیر رات تقریباً تین بجے آگ لگ گئی تھی۔جس میں متعدد افراد جھلس گئے تھے۔یہاں بھی وائرل تصویر کے حوالے سے کوئی خبر نہیں ملی۔ہاں تصویر کے نیچے دیباین رائے لکھا ہوا ملا۔
سبھی طرح کی تحقیقات سے ملی جانکاری سے تسلی نہیں ملی تو ہم نے نیوزایٹین میں شائع تصویر کے نیچے لکھے دیباین رائے کے ٹویٹرہینڈل کو کھنگالا۔جہاں ہمیں دیباین کا ایک ٹویٹ ملا۔جس میں انہوں نے وائرل پوسٹ کو فرضی بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تصویر انہوں نے اس وقت کلک کی تھی۔جب روہنگیا مسلمانوں کی جگیوں میں آگ لگی تھی۔آپ کو بتادیں کہ پندرہ اپریل کو دہلی کے اوکھلا اسمبلی حلقہ کے تھانہ جیت پور کنچن کنج میں رہ رہے رہنگیا کی جگیوں میں آگ لگی تھی۔
Fake news busted ! This fellow has been spreading fake reports on the basis of this pic stating how this #Rohingya man owns a phone, has three wives and 8 kids. Says we pay tax for him .. FAKE !!! This picture was clicked by me for a story when a Rohingya slum was burnt down… pic.twitter.com/ARTEM6s1Nw
— (@DebayanDictum) June 25, 2019
نیوزچیکر کی تحقیق میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ دہلی میں روہنگیا پناہ گزینوں کی وائرل تصویر کے ساتھ کیا گیا دعویٰ فرضی ہے۔یہ تصویر پندرہ اپریل دوہزار اٹھارہ کی ہے۔جب دہلی میں روہنگیاں پناہ گزینوں کی جگیوں میں آگ لگی تھی۔جس میں متعدد افراد جھلس گئے تھے۔
ٹولس کا استعمال
ریورس امیج سرچ
کیورڈ سرچ
ین ڈیکس سرچ
ٹویٹرایڈوانس سرچ
نتائج:جھوٹا دعویٰ(گمراہ کن)
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویزکے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.