Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
دعویٰ
ڈی اے وی پبلک اسکول کو کٹپل٘ی حیدرآباد کے ملازمین کے روی٘ے کو دیکھیں۔اسکول 3 ماہ سے بند ہے لیکن اسکول انتظامیہ ٹرانسپورٹیشن چارج لینے کیلئے والدین کو مسلسل پریشان کر رہی ہیں۔اس ویڈیو کو اتنا پھیلاؤ کہ محکمہ تعلیمات اور کے ٹی آر تک پہونچے۔تاکہ پرنسپل اور اسکول پر کاروائی ہو۔
تصدیق
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ملک بھر میں کروناوائرس سے متاثرین کی تعداد 719,665 پہونچ چکی ہے۔جبکہ 20,160 افراد کی اموات ہوچکی ہے۔سرکار نے اسی کے پیش نظر سبھی سرکاری اور نجی اسکول میں آن لائن تعلیم کا انتظام کیا ہے۔وہیں نجی اسکول بھی اسی پر عمل در آمد ہے۔لیکن اس کے باوجو نجی اسکولوں کے حوالے سے والدین کی شکایت آرہی ہے کہ اسکول والے ٹرانسپورٹ اور بقیہ اخراجات بھی فیس میں شامل کرکے مانگ رہے ہیں۔وہیں ان دنوں ایک اسکول کے پرنسپل اور سرپرست کے درمیان فیس کو لے کر نوک جھونک کا دومنٹ دوسیکینڈ کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم پر خوب گردش کررہا ہے۔جس میں بچے کی ماں اور پرنسپل ٹرانسپورٹیشن چارج کو لےکر بحث و مباحثہ کر رہی ہیں۔کچھ یوزرس نے دعویٰ کیا ہے کہ وائرل ویڈیو حیدرآباد کے کوکٹ پل٘ی کا ہے تو کچھ نے گورکھپور اور کچھ پاکستان کا بتا رہے ہیں۔مذکورہ دعوے کے ساتھ کئے گئے پوسٹ کا آرکائیو یک بعد دیگرے درج ذیل ہے۔
فیس بک پر البرکاس اینڈ حیدرآباد نامی پیج پر مذکورہ ویڈیو کو حیدرآباد کے کوکٹ پلی کا بتاکر شیئر کیا گیا ہے۔جس کا آرکائیو لنک یہاں دیکھیں۔
چوبیس جون کو ٹویٹر پر خان ساتھی نامی یوزر نے وائرل ویڈیو کو پاکستان کے شاہ ولایت گرامر اسکول گلبرگ کا بتا کر شیئر کیا تھا۔جبکہ چھ جولائی کو ریشی کیش نامی یوزرس نے ڈی اے وی اسکول کوکٹک پل٘ی حیدرآباد کا بتاکر شیئر کیا ہے۔دونوں کے آرکائیو لنک یہاں کلک کرکے دیکھیں۔
انسٹاگرام پر چھبیس جون کو گورکھپور اسٹاف نامی یوزر نے اس ویڈیو کو شیئر کیا تھا۔
پاکستانی فیس بک ہینڈل پر بھی اس ویڈیو کو مختلف دعوے کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔جسیے کہ وائس آف پاکستان،پی اے نیوز لائیو،ہیومن رائٹس پروٹیکشن فورم پاکستان میری بات اور اسٹڈی کیئر کوچنگ سینٹر نے بھی اس ویڈیو کو پچھلے ماہ شیئر کیا تھا۔سبھی کے آرکائیو یوزرس کے نام پر کلک کرکے دیکھیں۔
ہماری تحقیق
وائرل ویڈیو کو دیکھنے کے بعد ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات شروع کی۔سب سے پہلے ہم نے وائرل ویڈیو کا اویسم اسکرین شارٹ کی مدد سے کیفریم نکالا اور اسے ریورس امیج سرچ کیا۔جہاں ہمیں کچھ بھی نہیں ملا۔پھر ہم نے فیس بک ایڈوانس سرچ کا سہارا لیا اور کچھ کیورڈ سرچ کیا۔اس دوران ہمیں ایک پوسٹ ملا۔جس میں وائرل ویڈیو کو بشپ اسکاٹ گرل اسکول پٹنہ کا بتایا گیا ہے۔
مذکورہ جانکاری سے پتاچلا کہ وائرل ویڈیو بہار کے پٹنہ کے بشپ اسکاٹ گرل اسکول کا ہے۔پھر ہم نے اس حوالے سے کچھ کیورڈ سرچ کئے۔ جہاں ہمیں نیوز ایٹین ہندی ،نیوز24 اور ڈیلی بہار کے نیوز ویب سائٹ پر وائرل ویڈیو کے حوالے سے خبریں ملیں۔جس کے مطابق بچے کی والدہ اسکول کے پرنسپل سے ٹرانسپورٹیشن،لائبریری اور اینول چارج نہ لینے کی اپیل کررہی تھی۔تبھی اسکول کی پرنسپل اور اسٹاف نے سرپرست کے ساتھ بحث و مباحثہ اور بدسلوکی کرنے لگی۔جس کا ویڈیو سرپرست سامنے بنارہی تھی بعد میں ویڈیو وائرل ہوگیا۔نیوز ایٹین کے مطابق اسکول کے خلاف بہار سرکار نے کاروائی کا اعلان کیا ہے۔ساتھ ہی سرکار نے جانچ کمیٹی بھی تشکیل دےدی ہے۔
مذکورہ خبروں سے واضح ہوچکا کہ وائرل ویڈیو بہار کے پٹنہ کا ہے۔جہاں اسکول کی پرنسپل اور دیگر ملازم نے بدسلوکی کیاتھا۔اب ہم اپنے قاری کو تینوں اسکول یعنی حیدرآباد کوکٹ پلی اسکول ,پٹنہ بشپ اسکاٹ گرل اسکول اور شاہ ولایت گرامر اسکول گلبرگ پاکستان کے ویب سائٹ کو کھنگا لا تو پتا چلا تیونوں اسکول کی پرنسپل کا نام مختلف ہے۔درج ذیل میں حیدرآباد اور پٹنہ کی پرنسپل کی تصاویر دیکھیں۔
نیوزچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل ویڈیو کا حیدرآباد کے کوکٹ پلی کے ڈی اے وی اسکول یا پاکستان کے گلبر سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔بلکہ یہ ویڈیو بہار کے پٹنہ کا ہے ۔جہاں بچے کی سرپرست بشپ اسکاٹ اسکول کی پرنسپل سے ٹرانسپورٹیشن کے سلسلے میں اسکول جاکر پچھلے ماہ بحث و مباحثہ کی تھی۔جس کا ویڈیو فرضی دعوے کے ساتھ اب شیئر کیاجا رہا ہے۔
ٹولس کا استعمال
اویسم اسکرین شارٹ
ریورس امیج سرچ
گوگل کیورڈسرچ
فیس بک /ٹویٹر ایڈیوانس سرچ
یوٹیوب سرچ
نتائج:گمراہ کن/فرضی دعویٰ
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویزکے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.