Wednesday, April 16, 2025
اردو

Crime

کیا پیپسی کے ریپر لگے بیئر کینز کی قطر فیفا ورلڈ کپ کے دوران ہوئی اسمگلنگ؟

banner_image

فیس بک پر پیپسی کے ریپر لگے بیئر کینز والی تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ دعویٰ ہے کہ فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران قطر میں ہالینڈ کی مشہور ہائے نیکن بیئر کے کین پر پیپسی کے ریپر چڑھا کر قطر میں اسمگل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن کامیابی نہیں مل سکی۔

فیس بک پر ایک صارف نے تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران قطر کی حکومت نے شعائرِ اسلام کا بہت خیال رکھا ہے اور بڑی سختی سے ان پر کاربند ہے مگر اس کے باوجود دنیا کے ہر حصّے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو قوانین کی خلاف ورزی کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ حکومت نے اس ٹورنامنٹ کے دوران شراب پر مکمل پابندی عائد کی ہے مگر کچھ لوگوں نے ہالینڈ کی مشہور زمانہ ہاے نیکن بیئر کے کین پر پیپسی کولا کے ریپر چڑا کر قطر میں اسمگل کرنے کی کوشش کی ھے ۔

پیپسی کے ریپر لگے بیئر کینز والی یہ تصویر قطر ورلڈ کپ کے دوران کی گئی اسمگلنگ کی نہیں ہے
Courtesy:FB/Saudtabish

Fact Check/Verification

پیپسی کے ریپر لگے بیئر کینس والی تصویر کو ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں العربیہ اردو نیوز ویب سائٹ پر 12 نومبر 2015 کو ہوبہو تصویر کے ساتھ شائع رپورٹ ملی۔ جس میں دی گئی معلومات کے مطابق سعودی عرب کے کسٹم حکام نے الکوحل والی بیئر کے 48 ہزار کینز اسمگل کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔ کنٹینرز کا معائنہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ بیئر کے کینز کو چالاکی کے ساتھ پیپسی برانڈ کے اسٹیکرز سے چھپایا گیا تھا، جسے ضبط کر کےا اسمگلر کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ہم نے مزید کیورڈ سرچ کیا تو ہمیں پیپسی کے ریپر لگے بیئر کینز والی تصویر کے ساتھ شائع ڈیلی میل، بی بی سی انگلش، دی واشنگٹن پوسٹ اور سعودی عرب کی نیوز ویب سائٹ الریاض پر 2015 کی رپورٹس ملی۔ جس میں بھی اسے سعودی عرب کا بتایا گیا ہے۔ قطر فیفا ورلڈ کپ 2022 سے اس تصویر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ پیپسی کے ریپر لگے بیئر کینز والی اس تصویر کا تعلق قطر فیفا ورلڈ کپ سے نہیں ہے۔ بلکہ 2015 میں سعودی عرب کے کسٹم حکام نے ہائے نیکن کمپنی کے 48 ہزار بیئر کینز پکڑے تھے، جس پر پیپسی کا اسٹیکر لگا ہوا تھا۔

Result: False

Our Sources

Report published by Urdu Al Arabiya on 12 Nov 2015
Report published by BBC on 12 Nov 2015
Report published by The washington post on 12 Nov 2015

کسی بھی مشکوک خبر کی تحقیقات، تصحیح یا دیگر تجاویز کے لیے ہمیں واٹس ایپ کریں: 9999499044 یا ای میل: checkthis@newschecker.in

image
اگر آپ کسی دعوے کی جانچ کرنا چاہتے ہیں، رائے دینا چاہتے ہیں یا شکایت درج کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں واٹس ایپ کریں +91-9999499044 یا ہمیں ای میل کریں checkthis@newschecker.in​. آپ بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
About Us

Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check

Contact Us: checkthis@newschecker.in

17,795

Fact checks done

FOLLOW US
imageimageimageimageimageimageimage
cookie

ہماری ویب سائٹ کوکیز استعمال کرتی ہے

ہم کوکیز اور مماثل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مواد کو شخصی بنایا جا سکے، اشتہار کو ترتیب دی جا سکے، اور بہتر تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ 'ٹھیک ہے' پر کلک کرکے یا کوکی ترجیحات میں ایک اختیار کو آن کرنے سے، آپ اس پر متفق ہوتے ہیں، جیسا کہ ہماری کوکی پالیسی میں وضاحت کے طور پر ہوا ہے۔