Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میڈیا پر ایک تصویر کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ “انڈیا کے آسام میں ہندو انتہا پسندوں نے جامع مسجد کو نذر آتش کردیا، جبکہ سینکڑوں مسلمانوں کے گھروں کو بھی دہشت گرد ہندوؤں نے جلا ڈالا، لیکن عالمی برادری اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے”۔
گذشتہ دنوں آسام کے ضلع دارانگ کے علاقے سیپا جھاڑ میں بستی اجاڑ نے کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔ جہاں پولس فائرنگ میں 12 سالہ بچے سمیت 2 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ بتادوں کہ آسام پولس نے21 اور 23 ستمبر کو تجاوزات ہٹانے کی مہم چلائی تھی۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو آگ کی طرح پھیل گئی۔ ویڈیو میں پولس اہلکاروں نے سامنے سے آرہے ایک شخص پر فائرنگ کی اور بعد میں ایک فوٹو گرافر نے اس کی لاش کی بے حرمتی کی۔ اس واقعے کے دوران متعد گھروں کو نذر آتش بھی کیا گیا۔
وہیں دوسری جانب ان دنوں ایک عمارت کی تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ اس تصویر سے متعلق صارفین کا دعویٰ ہے کہ”انڈیا کے آسام میں انتہا پسند ہندؤں کے ہاتھوں جامع مسجد نذر آتش، جبکہ سینکڑوں مسلمانوں کے گھروں کو بھی دہشت گرد ہندوؤں نے جلا ڈالا،عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے“۔
وائرل پوسٹ کے آرکائیو لنک یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیں۔
Fact Check/Verification
آسام میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں جلائی گئی مسجد کے نام سے وائرل تصویر کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ہم نے تصویر کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں اسکرین پر متعد لنک فراہم ہوئے۔ ساتھ ہی اسکرین پر “کشمیر صوفی” لکھا ہوا بھی نظر آیا۔ جسے آپ درج ذیل میں موجود اسکرین شارٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔
ہم نے جب وائرل تصویر سے متعلق کیورڈ سرچ کیا تو ہمیں 4 مارچ 2020 کو شائع روز نامہ انقلاب بنگلہ کی ایک رپورٹ ملی۔ جس میں آتش زدگی والی تصویر بھی شامل تھی۔ ترجمہ کرنے پر پتا چلا کہ بھارت میں مسلمانوں پر ہو رہے تشدد کے سلسلے میں یہ رپورٹ ہے۔ لیکن تصویر کہاں کی ہے، یہ کہیں بھی واضح نہیں کیا گیا ہے۔
مزید کیورڈ سرچ کے دوران ہمیں فسٹ پوسٹ پر شائع 26جون 2012 کو شائع شدہ خبر ملی۔ جس میں اس تصویر کو جموں کشمیر کے دستگیر صاحب درگاہ میں لگی آگ کا بتایا گیا ہے۔ یہ درگاہ 200 سال پرانی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تصویر آسام میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں جلائی گئی مسجد کی نہیں ہے۔
مذکورہ خبر سے پتا چلا کہ وائرل تصویر کم از کم 9 سال پرانی ہے اور جموں کشمیر میں موجود دستگیر صاحب درگاہ کی ہے۔ پھر ہم نے اس سلسلے میں مزید کیورڈ سرچ کیا تو ہمیں ریڈف ڈاٹ کام پر وائرل تصویر سے متعلق تفصیلی رپورٹ ملی۔ ریڈف کی رپورٹ کے مطابق بھی یہ تصویر سرینگر میں موجود 200 سال پرانی دستگیر صاحب درگاہ کی ہے۔ جہاں صبح کے وقت آگ لگ گئی تھی۔ جس کے بعد درگاہ جل کر خاک ہو گئی تھی۔ بتادوں کہ یہ درگاہ پورے طور پر لکڑی سے بنی تھی۔ اس تصویر کو عمر غنی نامی فوٹوگرافر نے کلک کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جموں کشمیر کی مسجد میں ہوئی پولس فائرنگ کے ویڈیو کو پاکستان کا بتا کر شیئرکیا جا رہا ہے
Conclusion
نیوزچیکر کی پڑتال میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ آسام میں انتہا پسند ہندؤں کے ہاتھوں مسجد جلانے کی تصویر نہیں ہے۔ بلکہ یہ تصویر جموں کشمیر کے سرینگر میں موجود دستگیر صاحب درگاہ میں لگی آگ کی ہے اور یہ کم از کم 9 سال پرانی ہے۔
Result: False
Our Sources
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.