سوشل میڈیا پر 13 سیکنڈ کی ایک ویڈیو بھارت میں برقعہ پوش مسلمان خاتون پر ہوئے تشدد کا بتاکر شیئر کی گئی، ویڈیو میں نظر آ رہا شخص خاتون کے سر پر چوٹ مارتا ہے اور خاتون بیہوش ہو کر گر پڑتی ہے۔ ویڈیو کے ساتھ ایک ایکس صارف نے کیپشن میں لکھا ہے کہ “بھارت میں ہندو انتہاپسند کا ایک مسلمان لڑکی پر سرعام تشدد، گریبان پکڑا، سر میں چوٹ ماری، لڑکی بیہوش۔۔۔۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اب بھارت میں روز ایسے واقعات ہورہے ہیں، پولس کیس داخل نہیں کرتی۔ یہ سب ریاستی سرپرستی میں ہورہا تاکہ بھارت سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ کیا جائے”۔

اسی صارف نے ویڈیو کو مذکورہ کیپشن کے ساتھ اپنے فیس بک پر بھی شیئر کیا ہے۔

Fact Check/Verification
ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے ویڈیو کا بغور جائزہ لیا۔ اس دوران ہم نے پایا کہ خاتون کے پیچھے ایک بورڈ نظر آ رہا ہے، جس پر بنگلہ زبان میں کچھ لکھا ہے۔ اس کی مزید معلومات کے لئے ہم نے نیوزچیکر کی بنگلہ ٹیم کی مدد لی۔ انہوں نے بتایا کہ بورڈ پر لکھا متن پوری طور پر واضح نہیں ہے لیکن جو نظر آ رہا ہے اس میں “مدرسۃ الاحسان الاسلامیہ اور “تعلیمی سال 2024 میں” لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ہم نے جب گوگل پر یہ نام تلاش کیا تو اس نام کا ایک مدرسہ ہمیں ڈھاکہ، بنگلہ دیش میں موجود ملا۔ اس کے نام سے فیس بک پر بھی ایک یج موجود ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ویڈیو میں بولی جا رہی بنگالی زبان کا طریقہ ویسا نہیں ہے جو، عام طور پر بھارت کے مغربی بنگال میں استمال کیا جاتا ہے۔

مزید تحقیق کے دوران ویڈیو کے آخر میں ہمیں ایک گاڑی بھی گذرتی ہوئی نظر آئی، جس پر “اینرجی پیک جے اے سی” لکھا ہوا دکھائی پڑ رہا ہے۔ گوگل پر کیورڈ سرچ کے ذریعے معلوم ہوا کہ اینرجی پیک، جے اے سی موٹرس، جو کہ ایک چینی آٹوموبائل اور کمرشل گاڑیاں بنانے والی کمپنی ہے، کا بنگلہ دیش میں واحد ڈسٹری بیوٹر ہے۔ مزید سرچ میں یہ بھی واضح ہوا کہ جے اے سی موٹرس کی گاڑیاں فی الحال بھارتی بازار میں دستیاب نہیں ہیں۔


مزید تحقیق کے دوران یہی ویڈیو پرمانند اعظم گڑھی کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے 26 نومبر کو شیئر شدہ ملی۔ ان کے ایکس اکاؤنٹ پر فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہ سماج وادی پارٹی چھاتر سبھا کے قومی سکریٹری ہیں۔ ان کے پوسٹ کے جواب میں اعظم گرھ پولس نے واضح کیا ہے کہ یہ ویڈیو اعظم گڑھ کے کسی واقعے سے متعلق نہیں ہے۔ ساتھ ہی غلط اور فرضی افواہ پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی بات بھی کہی گئی ہے۔

البتہ ہم آزادانہ طور پر یہ تصدیق نہیں کرتے کہ یہ واقعہ کب اور کس مقام پر پیش آیا، حالانکہ تحقیق کے دوران ہمیں کوئی معتبر خبر بھی موصول نہیں ہوئی۔ جس سے واقعے کی جگہ ثابت ہو۔ لیکن اس ویڈیو کا تعلق بھارت سے نہیں ہے۔ حالانکہ کئی صارفین نے ویڈیو کو بگلہ دیش کے ڈھاکہ کا بتایا ہے۔

Conclusion
اس طرح نیوز چیکر کی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت میں برقعہ پوش مسلمان خاتون پر ہوئے تشدد کا بتاکر شیئر کی گئی ویڈیو دراصل بنگلہ دیش کی ہے۔
Sources
Self Analysis
X post by Azamgarh police on 27 Nov 2025
Madarsa details found on Facebook