Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
ہندوستان کی تاریخ میں رام جنم بھومی اور بابری مسجد کا معاملہ ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس تنازع کی بنیاد دراصل انیس سو انچاس کی رات جب مسجد کے اندر رام للا کا مجسمہ رکھا گیا تھا۔ تبھی سے شروع ہوگئی تھی۔جبکہ بابری مسجد کی کہانی اس سے کئی سال پرانی ہے۔مؤرخین کے مطابق پندرہ سو اٹھائیس میں مغل بادشاہ بابر کے سپہ سالار میر باقی نے مسجد کی تعمیر کروائی ۔ ساتھ ہی یہ کہاجاتاہے کہ بابر نے بابری مسجد بذات خود تعمیر نہیں کروایاتھا بلکہ اس کی سنگ بنیاد رکھاتھا۔وہیں ہندؤں کا کہنا ہے کہ یہ مسجد اس جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔جہاں نہ صرف رام مندر تھا بلکہ بھگوان رام بھی پیدا ہوئے تھے۔اسلئے یہاں پر دوبارہ سے مندر کی تعمیر ہونی چاہیئے۔ آپ کوبتادیں کہ مسجد کی تعمیر کو لے کر کیاجارہادعویٰ صرف دو فرقوں کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ دونوں مذہب کےالگ الگ طبقے آمنے سامنے ہیں۔کہیں شیعہ سن٘ی آمنے سامنے ہیں تو کہیں نرموہی اکھاڑہ اوررام للا جیسے گروپ مندر بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔بتاتا چلوں کہ مسلم فریق کی جانب سے شیعہ کا کہنا ہے کہ میر باقی شیعہ تھےاس لئےمسجد پر ان کا حق ہے۔دوسری طرف سنیوں کا کہنا بابر سنی تھے اس لئے مسجد پر ان کا حق ہے۔درحقیقت اس معاملے پر اہم فیصلہ سپریم کورٹ کو سنانا ہے۔جوکہ سپریم کورٹ اپنا فیصلہ محفوظ رکھ چکا ہے۔
کیا ہے رام جنم بھومی اور بابری مسجد معاملہ؟
اس تنازع کو اچھے سے سمجھنے کےلئے ہمیں کچھ سال پیچھے جانا ہوگا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس مسئلے پر کب تنازع شروع ہوا وہ جانا جائے۔تو آپ کو بتادوں کہ سب سے پہلا مقدمہ اٹھارہ سو پچاسی میں داخل کیا گیاتھا۔
زمین کو لے کر تنازع کا آغاز اٹھارہ سو ترپن میں ہوا۔اس وقت اودھ پر نواب واجد علی شاہ کی حکومت تھی۔تبھی نرموہی برادری کے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ جس جگہ پر بابری مسجد ہے۔وہاں مندر ہوا کرتا تھا۔جس کے بعد زمین کو لےکر مذہبی فساد کا آغاز ہوا۔
آپ کو بتادوں کہ اٹھارہ سو ستاون تک دونوں ہی مذاہب کے لوگ اس جگہ پر نماز اور پوجا کرتے تھے۔لیکن اٹھارہ سو انسٹھ میں ہوئے بغاوت کے بعد فرنگیوں نے اس جگہ پر دائرہ کھینچ کر دونو ں فرقوں کو الگ الگ عبادت کرنے کو کہا۔
سروَپل٘ی گوپال کی کتاب “اناٹومی آف آ کَنفرَن ٹیشن:ایودھیا اینڈ دی رائز آف کمیونَل پالیٹکس اِن انڈیا” کے مطابق اٹھارہ سو پچپن میں فساد ہوا تھا۔دراصل وہ بابری مسجد کو لے کر نہیں بلکہ ہنومان گڑھی مندر کولےکر ہواتھا۔جس پر کچھ مسلمانوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مندر مسجد کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔اس کے بعد مندر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔مندر میں گُھس پیٹھ کرنے والوں کو مار پیٹ کر بھگا دیاگیا۔اتنا ہی نہیں کئی گھس پیٹھیئے بابری مسجد میں جاکر چھپ گئے۔
اس جھگڑے کو سلجھانے کےلئے اودھ کے نواب واجد علی شاہ کے ذریعے ایک کمیٹٰی تیارکی گئی۔جس نے یہ طے کیا کہ ہنومان گڑھی مندر مسجد کو منہدم کرکے نہیں بنائی گئی تھی۔حالانکہ مسلمانوں میں تشدد نہ بھڑ کے اسلئے مندر کے ساتھ ایک مسجد تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔
تنازعہ کے بعد سال اٹھارہ سو ستاون میں ہنومان گڑھی کے مہنت نے بابری مسجد کے پاس ایک چبوترا بنایا۔اس کی شکایت کے بعد اٹھارہ سو اکسٹھ میں برطانوی افسروں نے چبوترے اور مسجد کے بیچ ایک دیوار کھڑی کردی۔پھر اٹھارہ سو تیراسی میں مہنت رگھوورداس نے چبوترے پر مندر بنانا شروع کیا۔لیکن مسلمانوں نے مندر کی تعمیر پر اعتراض جتایا۔جس کے بعد مجسٹریٹ نے مندر کی تعمیر پر روک لگادیا۔تب رگھوورداس نے نارض ہوکر اٹھارہ سو پچاسی میں عدالت کادروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کیس فائل کیا۔جس میں لکھا کہ چبوترےکا مالک ہونےکے ناتے انہیں کچھ بھی بنانے کا حق ہے۔
رگھوورداس کی اپیل کونائب جج نے یہ کہکر خارج کردیا کہ چبوترےپر مندر بننے کے بعد دونوں فرقوں کے درمیان اختلافات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ اختلاف بڑھا تو دونوں کے فرقوں کے جان مال کا بھی نقصان ہوسکتاہے۔اس فیصلے کے بعد رگھوور داس اس معاملے کو ضلعی جج کے پاس لے کر گئے۔وہاں بھی انہیں مایوسی ہاتھ لگی۔ضلع جج نے نائب جج کے فیصلے کو صحیح ٹھہرایا۔اتنا ہی نہیں چبوترے کا رگھوورداس اور ہندوؤں کے حق کو بھی خارج کردیا۔لیکن رگھوورداس نے ہار نہیں مانی۔ انہوں نے اودھ کے جوڈیشل کمشنر کی عدالت میں اپیل کی۔یہاں انہوں نے عدالت سےمندر کی تعمیر کی اجازت اور ضلع جج کے فیصلے کو منسوخ کرنے کی اپیل کی۔
جوڈیشل کمشنر نے اس معاملے پر سنوائی کرتے ہوئے کہا ہندو سماج اس پَوِتر مقام پر مندر بنوانا چاہتے ہیں۔جہاں بھگوان رام چندر کا جنم ہوا تھا۔ جبکہ یہ جگہ تین سو پچاس سال پہلے بابر کی جانب سے تعمیر کی گئی مسجد کا صحن ہے۔یہ بات عدالت نے سنوائی کے دوران اٹھارہ سو چھیا سی میں کہی تھی۔عدالت نے مزید کہا کہ ہندوسماج زمین کا دائرہ دھیرے دھیرےبڑھاتاجارہاہےاور اس جگہ پر دوعمارتیں بنانا چاہتا ہے۔”سیتا کی رسوئی اور رام جنم بھومی”۔عدالت نے تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے جھگڑے والی زمین پر کچھ بھی نہیں بنانے کے فیصلے کو صحیح ٹھہرایااورضلعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔سال انیس سو چونتیس میں ایک بار پھر ایودھیا میں ہنگامے کے بعد مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی۔جس کےبعد موجودہ برطانوی حکومت نے اس کی مرمت کروائی اور بعد میں بابری مسجد کو سن٘ی طبقے کو سونپ دیا۔
جب راتوں رات رکھا گیا مسجد میں رام للا کا مجسمہ
آزادی کے بعد اترپردیش کی سیاست میں نشیب و فراز کا ماحول تھا۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن نے اترپریش کی کرسی پر قابض کانگریس سرکار کو ہلا کر رکھ دیاتھا۔سال انیس سو اڑتالیس کے ضمنی انتخابات اس بات کی شاہد ہیں۔کانگریس سے الگ ہوئے ایم ایل اے اچاریہ نریند دیو نے پھر سےچناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے فیض آباد سے چناوی بگل پھونکا۔ان کے سامنے اس وقت کے سی ایم جی بی پنت نے دیو کے سامنے بابا راگھوداس کو اتارا۔جہاں رگھوداس چناؤ جیت گئے۔
کرشن جھا نے اپنی کتاب ایودھیا:دی ڈارک نائٹ میں ضمنی انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بابری مسجد کے اندررام للا کی مورتی رکھنے کی تجویز اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ کے کے نایر نے دیا تھی۔جس کے بیس دن بعد بائیس دسمبر انیس سو انچاس کو ہی مسجد میں مجسمے رکھ دیئے گئے۔
اگلی صبح جب حالات قابوباہر سے ہوتے دیکھا تونایر نے نگر پالیکا کے چیئرمین پریادت رام سے اس معاملےمیں مداخلت کی اپیل کی۔نایر نے اترپردیش کے سیکرٹری کو خط لکھ کر یہ مشورہ دیاکہ مسجد سے بتوں کو نہ ہٹایا جائے ایسا کرنے سے تشدد برپا ہوسکتا ہے۔انتیس دسمبر انیس سوانچاس کو مسجٹریٹ مارکانڈے سنگھ نے بابری مسجد سےمندرمتصل کرکےپریادت رام کو اسکی ذمہ داری سونپ دی۔
عدالت سےمانگی گئی رام للا کی پوجا کرنے کی اجازت
رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازعہ کو لے کر دوسرا مقدمہ گوپال سنگھ ویشارد نےفیض آباد کی عدالت میں داخل کیا۔جس میں عدالت سے مطالبہ کیا کہ مسجد میں موجود رام للا کا پوجاانہیں کرنے دیاجائے۔ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا کہ مسجد سے مورتی نہ ہٹائی جائے۔یہی نہیں ویشارد کے اپیل کے بعد رام چندر داس پر مہنس نے بھی ایک مقدمہ داخل کیا۔جس میں انہوں نے رام للا کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی۔۔
نرموہی اکھاڑا نے کیا رام جنم بھومی پردعویٰ
اس معاملے میں تیسرا مقدمہ نرموہی اکھاڑااور مہنت رگھوناتھ داس کی طرف سے داخل کیا گیا۔جس میں مطالبہ کیا گیا کہ رام جنم بھومی کی ذمہ داری انہیں سونپ دی جائے۔
سن٘ی وقف بورڈ نے بھی کھٹکھٹایا عدالت کا دروازہ
انیس سو اکسٹھ میں سن٘ی وقف بورڈ کی جانب سے ایک مقدمہ درج کرایا گیا۔جس میں مانگ کی گئی کےبابری مسجد کو عوامی مسجد قرار دیا جائےاور مسجد کے اندر سے مجسمے ہٹائے جائے۔انیس سو چونسٹھ میں چاروں مقدموں کو ایک کیاگیااورسن٘ی وقف بورڈ کے مقدمے کو خاص مانا گیا۔
جب عدالت نے مسجد کے تالے کھولنے کی دی اجازت
تقریباً بیس سالوں تک یہ مقدمہ ایسے ہیں پینڈنگ میں رہا۔ پھریہ معاملہ اس وقت چرچے میں آیا جب انیس سو چھیاسی میں جج ہری شنکردوبے نے امیش شنکر پانڈے کی اس عرضی کو خارج کردیا۔جس میں مسجد کے تالے کھولنے کی اپیل کی گئی تھی۔پھر پانڈے نے ضلعی عدالت میں اس معاملے کولے کر اپیل کی۔ جہاں عدالت کی جانب سے ہندوؤں کو متنازعہ مقام پر پوجا کی اجازت دےدی گئی۔تب مسلمانوں کی جانب سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام رکھا گیا۔۔
یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔پہلا 1857 کی جنگ آزادی، دوسرا 1920میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947 میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘اور پانچواں 1984میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992 میں بابری مسجد کا انہدام‘جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔
ایک دلت نے رکھا رام مندر کی بنیاد کا پہلا پتھر
انیس سو نواسی میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے مسجد کے قریب ایک غیر متنازعہ مقام پر رام مندر کی بنیاد رکھنے کی اجازت دی۔ نونومبر انیس سو نواسی کو ایک دلت کملیش چوپال نے مندر کے بنیاد کے طورپرپہلی اینٹ رکھی ۔تب بی جے پی نے کانگریس کے اس قدم پر وشیو ہندو پریشد کی جانب سے کی جارہی رام مندر آندولن کی حمایت کی اور رام مندر بنانے کا حلف بھی لیا۔ اس قدم کا اتنااثر ہوا کہ کانگریس الیکشن ہار گئی اور بی جے پی کی حمایت سے جنتا دل اقتدار پر قابض ہو گیا. بی بی سی اردو کے مطابق ایک سال بعد ہندو شدت پسندوں نے بابری مسجد کو جزوی نقصان پہنچایا۔ اس وقت کے وزیر اعظم چندر شیکھر نے مذاکرات کے ذریعہ تنازعہ کوحل کرانے کی کوشش کی ۔ لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ مسجد کی مسماری کی بنیاد ایک طرح سے انیس سو اکیانوے میں رکھی گئی جب اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی۔
اسی درمیان ایودھیا تنازع کولےکر ایک اور مقدمہ درج کیا گیا۔یہ مقدمہ بھگوان شری رام ویراج مان کی طرف سے دیوکی نند اگروال نے درج کیا۔جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایودھیا کےرام جنم بھومی پر صرف دیوی دیوتاؤں کا حق ہے۔اس لئے اس مقام پر مندر کی تعمیر میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے۔ادھر انیس سو ستاسی میں یوپی سرکار کی جانب سےداخل کی گئی عرضی پر فیصلے دیتے ہوئےعدالت نے انیس سو نواسی میں ہی ایودھیا معاملےسے جڑے سبھی مقدمے کو الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ بھیج دیاتھا۔۔
سوم ناتھ سے ایودھیا تک نکالی گئی رتھ یاترا
انیس سونوے میں لال کرشن اڈونی نے سومناتھ سے ایودھیا تک کی رتھ یاترا شروع کی۔لیکن انہیں بہار میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا۔تب بی جے پی نے جنتادل سے اپنی حمایت واپس لے لی۔ جس کے بعد وی پی سنگھ نے وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔دوسری جانب ایودھیا میں سادھو سنتوں کی بھیڑ امڑ پڑی تھی۔اس وقت یوپی میں ملائم سنگھ سی ایم تھے۔جوکہ بابری مسجد کے چارو جانب پختہ سکیوڑٹی کا انتظام کیاگیا تھا۔لیکن بھیڑ قابو میں نہ آسکی ۔جس کو قابومیں لانے کے لئے پولیس نےبھیڑ پر گولیاں چلادیں۔جس میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے ۔جبکہ کئی لوگ زخمی ہوگئے۔دو دن بعد کارسیوکوں کی قیادت کررہی اوما بھارتی اور اشوک سنگھل ہزاروں کی تعداد میں کار سیوکوں کو لے کر ہنومان گڑھی کی جانب گئے۔مشتعل ہجوم کو روکنے کے لئےپولیس کی جانب سے ایک بار پھر فائرنگ کی گئی۔اس فائرنگ میں ہزاروں کارسیوکوں کی موت ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملائم سنگھ کو ست٘ا سے ہاتھ دونا پڑا۔۔
بابری مسجد کا انہدام
چھ دسمبر انیس سو بانوے کوآر ایس ایس اوران کے حامی جماعتوں نے ایودھیا میں ایک ریلی نکالی۔ جہاں ملک بھر سے تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار کار سیوکوں نے شرکت کی۔ جن کو ہندو تنظیم کے معروف لیڈر لال کرشن اڈوانی،مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی نے خطاب کیا۔جس کا اثر یہ ہوا کہ شدت پسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد ملک کے مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوئے ۔ پولس نے لاٹھی چار ج کیا اور فائرنگ میں کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔ جلد بازی میں عارضی طور پر رام مندر بنا دیا گیا۔ اس بیچ سابق وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے مسجد کی از سر نو تعمیر کا وعدہ بھی کیا۔
آئی بی کے سابق صدر ملائے کرشن دھر کی دوہزارپانچ میں اس تعلق سے ایک کتاب منظرعام پرآئی۔جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد کو شہید کرنےکی تیاری آرایس ایس نے دس مہینے پہلے ہی کر لی تھی۔ ملائے کرشن نے اپنی کتاب میں سابق پی ایم نرسمہاراؤ پر الزام لگاتے ہوئے لکھا کہ آرایس ایس ،بی جے پی اور ہندو مہاسبھا کے لیڈر پہلے ہندوت کا بلو پرنٹ تیار کر چکے تھے۔انہوں نے مزید الزام لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ سیاسی کرسی بچانے کے لئے اس کام کے لئے اجازت دے دی گئی۔
دوہزار چودہ میں کوبراپوسٹ کے ذریعے کئے گئے اسٹنگ آپریشن میں بھی اس بات کا انکشاف ہواتھا کہ مشتعل بھیڑ نے بابری مسجد کو منہدم نہیں کیا بلکہ یہ وشیو ہندو پریدشد اور شیوسینا کی سوچی سمجھی سازش تھی۔
ایودھیا میں کارسیوکوں نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے 7 جنوری 1993 کو آرڈیننس لاکر مسجد کی زمین کے پاس کی چھیاںسٹھ اعشاریہ سات ایکڑ زمین کو ایکوائرڈ کر لیا۔اس ایکویزیشن میں زمین کاایک سو بیس بائی اس٘ی فٹ کا وہ حصہ بھی تھا جہاں بابری مسجد موجود تھی اور جسے آج بابری مسجد-رام جنم بھومی احاطہ کہا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کو اسماعیل فاروقی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اپنی عرضی میں کہا تھا کہ حکومت کسی مذہبی مقام کو ایکوائرڈ نہیں کر سکتی۔ اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لہذا مسجد کی زمین کو بھی حکومت اگر چاہے تو ایکوائرڈ کر سکتی ہے۔ انیس سو چورانے میں ڈاکٹر فاروقی کی عرضی پر سنوائی کرتے ہوئےپانچ ججوں کی بینچ نے سرکار کے مذہبی مقام کوایکوائرڈ کرنے کو صحیح ٹھہرایا۔اور کہااسلام میں نماز مسجد میں پڑھی جائے ایسا نہیں لکھا ہے۔بلکہ نمازکہیں بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ ۔
بابری مسجد گرائے جانے کےبعد دفعہ ایک سو تینتالیس کے تحت صدر جمہوریہ کے ذریعے اس معاملے کو سپریم کورٹ بھیجا گیااور یہ طے کرنے کے لئے کہاگیا کہ متنازعہ زمین پر مندر تھی یا نہیں؟جس پر سپریم کورٹ نے انیس سو چورانوے میں یہ کہ کر لوٹا دیا کہ اس معاملے میں کوئی بھی قانونی پینچ نہیں ہے۔پھراس مقدمے کو دوبارہ کھولا گیا۔جس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ مندر میں ہندوؤں کا پوجا ارچنا کرنا جاری رہےگا۔ ۔
مذہبی سرگمیوں پر لگائی گئی پابندی
ایودھیا کی چھیانسٹھ اعشاریہ سات ایکڑ زمین کا حقدار کون ہوگا؟اس مسئلےپر دوہزار دو میں متنازع مقام کی ملکیت کے بارے میں مقدمے کی سماعت کاآغاز ہوا۔ جنوری دوہزار تین میں اسلم عرف بھورے کیس پر سنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ لیا کہ متنازعہ مقام پر کسی بھی طرح کی کوئی مذہبی ہل چل نہیں ہوگی۔۔
2003میں اورکیا ہواتھامندرجہ ذیل میں ایک نظر ڈالیں
جنوری 2003: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے عدالت کے حکم پر متنازعہ مقام کےجائزہ کا آغاز۔
اگست2003: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی جانب سے مسجد کے نیچے مندر کی موجودگی کے شواہد کا اعلان۔ مسلمانوں کی جانب سے اعتراضات۔
ستمبر 2003:عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام پر ا کسانے کے الزام میں سات ہندو رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ۔
اکتوبر 2003: مسلم تنظیموں کی جانب سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا مطالبہ۔
دسمبر 2003: انہدام کی گیارہویں برسی پر حیدرآباد دکن میں فسادات۔ پانچ افراد ہلاک۔
جولائی دوہزار نو میں لبراہن کمیشن نے کمیشن تشکیل کے 17 سال بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ کو اپنی رپورٹ سونپی۔
تین حصوں میں تقسیم کی گئی متنازع زمین
آٹھ سال بعد اس معاملے پر سنوائی کرتے ہوئےہائی کورٹ نے متنازعہ زمین کو سن٘ی وقف بورڈ،نرموہی اکھاڑا اور رام للا ویراج مان کے درمیان تقسیم کردیا۔اس فیصلے پر دوہزار گیارہ میں سپریم کورٹ نے روک بھی لگا دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں پہنچا رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازع
رام مندر کوبی جے پی ہمیشہ سے اہم مُد٘ا بنا کر ووٹ لینے کے لئے اپنے منشور میں داخل کرتی رہی ۔اس لئے ایک بار پھر جب بی جے پی نے مرکز کی کرسی سنبھالی تو دوبارہ سے رام مندر بنانے کی مطالبہ تیز ہوگئی۔ دوسری جانب بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کر کے متنازع زمین پر مندر بنانے کی مانگ کی۔جس کے بعد اور معاملہ گرما گیا۔
دونوں فریقوں نے جب متنازعہ زمین پر اپنا اپنا حق ظاہر کیا تو سپریم کورٹ نے دونوں فریق سے کہا کہ آپس میں اس معاملے کو بات چیت کر کے حل کرلیں۔لیکن اس کے باوجود مسئلے کا حل نہیں نکل سکا۔
دوہزار اٹھارہ میں سپریم کورٹ نے سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔تاکہ کوئی بیچ کا رستہ نکل سکے۔لیکن معاملے کا حل تب بھی نہیں نکل پایا۔جب یہ سارے راستے پوری طور سے ناکام رہے۔تب دو اگست دوہزار انیس کو سپریم کورٹ نے فیصلہ کیاکہ اب معاملے کی سماعت روز ہو۔ چالیس دنوں تک سپریم کورٹ نے دونوں فریقین کی دلیلیں سن کر فیصلے کو محفوظ رکھا۔اس دوران اتر پردیش سمیت ملک بھر میں حالات کشیدہ نہ اس لئے سخت سکیورٹی کا بندو بست بھی کردیا گیاہے۔خاص کر ادیودھیا کے ارد گرد پولیس اہلکاروں کا سخت پہرا لگا دیا گیاہے۔ہر آنے جانے والے شخص پرسکیورٹی کی باز کی نگاہیں ہیں۔اب امید کیاجارہاہے کہ ملک کےایک سو چونسٹھ سال پرانے مسئلےپر فیصلہ اسی سال سترہ نومبرکو آجائےگا۔
(نوٹ:۔ اگرآپ ہمارے ریسرچ پراتفاق نہیں رکھتے ہیں یا آپ کے پاس ایسی کوئی جانکاری ہے جس پر آپ کو شک ہےتو آپ ہمیں نیچے دیگئی ای میل آڈی پر بھیج سکتے ہیں۔
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.