Authors
Claim
بنگلہ دیش میں اجتماعی عصمت ریزی کی متاثر ہندو خاتون کی ویڈیو۔
Fact
ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ہندی کیپشن کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے، جس میں ایک خاتون ہجوم کے مابین ڈری سہمی نظر آ رہی ہے اور وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ویڈیو اس دعوے کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندو خاتون کو ہجوم نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی حفاظت کے لئے کوئی سامنے نہیں آیا۔
ویڈیو کے ساتھ ہندی میں لکھا ہے: ترجمہ “بنگلہ دیش میں ہندو خاتون کو کئی لوگوں نے جسمانی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر ویڈیو بنایا، متاثرہ کی مدد کے لئے ایک بھی شخص نہیں آیا اور ہماری حکومت بنگلہ دیشی ۔۔۔ کو کھلانے کے لئے چاول بھیج رہی ہے”۔ (ویڈیو میں پریشان کن مناظر ہیں)
Fact Check/Verification
نیوز چیکر نے وائرل ویڈیو کے ساتھ کئے گئے دعوے کی تصدیق کے لئے گوگل پر بنگلہ زبان میں چند کیورڈ سرچ کئے۔ اس دوران ہمیں 27 دسمبر 2024 کو بنگلہ دیشی نیوز آؤٹ لیٹ ‘سمے نیوز‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ موصول ہوئی۔ جس میں وائرل ویڈیو کے مناظر موجود تھے۔
سمے نیوز کے مطابق یہ واقعہ بنگلہ دیش کے نارائن گنج ضلع کے کاہندی گاؤں میں 26 دسمبر کی رات کو پیش آیا تھا۔ جہاں 7-8 چوروں کا گروہ ایک کار چوری کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن گاؤں والوں کو شک ہوا اور انہوں نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ جس کے بعد چور گینگ کے تمام ارکان وہاں سے فرار ہو گئے تاہم دو ارکان بلال اور لولی فرار ہونے میں ناکام رہے۔
ہجوم کی جانب سے ملزم بلال کی پٹائی کے دوران موت ہو گئی۔ لولی نے جان بچانے کے لئے قریبی نہر میں چھلانگ لگا دی، بعد ازاں پولس نے موقع پر پہنچ کر بلال کی لاش کو اپنے قبضے میں لےکر لولی کو بھی بچا لیا۔ رپورٹ میں اسسٹنٹ ایس پی مہندی اسلام کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس دوران پولس نے لولی نامی خاتون کے خلاف ارائی ہزار تھانے میں مقدمہ بھی درج کیا تھا۔
تاہم رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا یہ خاتون مسلمان تھی یا ہندو۔ اس لے ہم نے نارائن گنج ضلع کے صحافی غلام ربانی شیمول سے رابطہ کیا۔ انہوں نے نارائن گنج کے سرکل ایس پی اور ارائی ہزار میں لولی کے پڑوسیوں سے رابطہ کیا۔ جنہوں نے تصدیق کی کہ لولی مسلمان ہے، اس کے والد کا نام ادریس علی ہے اور وہ ارائی ہزار کے تلچنڈی کا رہائشی ہے۔ اس دوران سرکل ایس پی نے یہ بھی بتایا کہ لولی کو ہجوم سے بچانے کے بعد ارائ ہزار ہیلتھ کامپلیکس میں بھی داخل کرایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کرکٹر محمد شامی اور ثانیہ مرزا کی مصنوعی تصاویر فرضی دعوے کے ساتھ وائرل
Conclusion
اس طرح ہماری تحقیقات کے دوران ملنے والے شواہد سے یہ ثابت ہوا کہ وائرل ویڈیو کے حوالے سے جو دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون ہندو نہیں بلکہ مسلمان ہیں۔
Result: False
Our Sources
Article Published by somoy news on 27th dec 2024
Telephonic Conversation with Narayanganj journalist Golam Rabbani Shimul
(اس آرٹیکل کو ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے)
نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واہٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے واہٹس ایپ چینل کو بھی فالو کریں۔