منگل, نومبر 19, 2024
منگل, نومبر 19, 2024

HomeFact Checkخاتون ٹیچر کو بوسہ لے رہا شخص بی جے پی لیڈر اجے...

خاتون ٹیچر کو بوسہ لے رہا شخص بی جے پی لیڈر اجے راجپوت نہیں ہے

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

دعویٰ

وائرل ویڈیو میں دعویٰ کیا جارہاہے کہ بی جے پی لیڈر اجے راجپوت گجرات کے ایک اسکول میں خاتون ٹیچر کو بوسہ لے رہےہیں۔

فیس بک پر سندیپ رابَڑیانامی اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو شیئر کیا گیاہے۔ویڈیو میں ایک شخص آفس میں کھڑی خاتون کو بوسہ لے رہاہے۔پوسٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ گجرات میں اجے راج پوت نامی بی جے پی لیڈر نے اسکول جاکر خاتون ٹیچر کے ساتھ چھیڑخانی کی ہے۔

پھر ہم نے اس ویڈیو کی تفصیل سے تفتیش شروع کی۔تب ہمیں ایک ٹویٹر اکاؤنٹ ملا۔جہاں تقریباً دومہینے پہلے اسی دعوے کے ساتھ  کئی پوسٹ ملے۔ جس میں اسی طرح کا جملہ لکھاتھا۔

https://twitter.com/hashtag/ManVsWild?src=hash&ref_src=twsrc^tfw“>#ManVsWild  गुजरात BJP नेता अज़य राजपूत स्कूल में घूसकर महिला टीचर के साथ क्या कर रहे हैं,  यह आप खुद ही देख लीजिए और दुनिया को भी दिखाइए ।https://twitter.com/hashtag/GujaratFloods?src=hash&ref_src=twsrc^tfw“>#GujaratFloods https://t.co/6yjJZdQ721“>pic.twitter.com/6yjJZdQ721

— Maninder Singh cheema (@Maninder2331)

“>August 12, 2019

गुजरात BJP नेता अज़य राजपूत स्कूल में घूसकर महिला टीचर के साथ क्या कर रहे हैं,  यह आप खुद ही देख लीजिए और दुनिया को भी दिखाइए ।  अब बीजेपी से थक चुकी है जनता https://t.co/K3z85Yj63q“>pic.twitter.com/K3z85Yj63q

— Harshil Jain (@Harshil03491629)

“>August 7, 2019

एक ओर आया https://twitter.com/hashtag/बीजेपी?src=hash&ref_src=twsrc^tfw“>#बीजेपी नेता का चेहरा सामने

गुजरात BJP नेता अज़य https://twitter.com/hashtag/राजपूत?src=hash&ref_src=twsrc^tfw“>#राजपूत स्कूल में घूसकर https://twitter.com/hashtag/महिला?src=hash&ref_src=twsrc^tfw“>#महिला टीचर के साथ क्या कर रहे हैं,  यह आप खुद ही देख लीजिए और https://twitter.com/hashtag/दुनिया?src=hash&ref_src=twsrc^tfw“>#दुनिया को भी दिखाइए । https://t.co/4lV8AhM6fg“>https://t.co/4lV8AhM6fg

— ѕαиʝαу ( INC) (@Sanjay00764162)

“>August 16, 2019

چھیڑخانی والےویڈیوکے بارے میں مزید تحقیقات شروع کی۔پھر ہم نےمختلف کیورڈس کے ذریعے گوگل سرچ کیا۔تب ہمیں دوہزار پندرہ میں شائع آج تک کی ایک خبرملی۔جس میں لکھا تھا کی گجرات کے تاپی میں بی جے پی کےایک کارکن نےکمپیوٹرٹیچرکا جبراً بوسہ لیاتھا۔جس کے بعد اس کا یہ گھنونہ ویڈیو وائرل ہواتھا۔اس کارکن کا نام اجےراپوت ہی ہے۔راج پوت نَونِرمان سیوا تنظیم چلاتاہے۔وہ خود کو مہووا اسمبلی کےبی جے پی ایم ایل موہن ڈوڈیا کا پی اے بھی بتاتاہے۔

بتایا جارہاہے کہ اجے جس ادارے کوچلاتاہے۔وہاں آدیواسی بچوں کوکمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے۔جہاں ایک آدیواسی خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی بچوں کو پڑھاتی ہے۔جس کے ساتھ اجے راج پوت پراس گھنونے کام کو انجام دینے کاالزام لگایاگیاتھا۔جس کے بعد تمام میڈیا میں اجے راج پوت کو بی جے پی کالیڈربتایاگیاتھا۔

اتناہی نہیں جب ہم نے مزید تحقیقات شروع کی۔تب ہمیں گجراتی اخباردیویا بھاسکر میں اکتیس مئی دوہزارپندرہ کوشائع ایک خبرملی۔جس میں لکھاہے کہ بی جے پی نے پریس کانفرنس کرکے واضح کردیا تھاکہ اجےراج پوت کا بی جے پی سے کسی بھی طرح کاکوئی تعلق نہیں ہے۔کانفرنس میں مزید کہاگیاتھاکہ اجے راج پوت نے بی جے پی لیڈر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیاہے۔اس لئے اجے کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔

وہیں دوسری جانب ایک مقامی چینل کا ویڈیو ملا۔جس میں یہ دکھایا گیاہےکہ اجے راجپوت کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب ان ساری تحقیقات سے صاف واضح ہوتاہےکہ یہ معاملہ دوہزار انیس کا نہیں بلکہ چار سال پراناہے ۔جس کے ذریعے عوام میں بی جے پی کے خلاف بھرم پھیلایا جارہا ہے۔

     ٹولس کا استعمال

  • فیس بُک سرچ
  • ٹویٹر ایڈوانس سرچ
  • گوگل کیورڈس سرچ

            نتائج:گمراکُن

 

دعویٰ

وائرل ویڈیو میں دعویٰ کیا جارہاہے کہ بی جے پی لیڈر اجے راج پوت گجرات کے ایک اسکول میں خاتون ٹیچر کو بوسہ لے رہےہیں۔

 

 

تحقیقات

فیس بک پر سندیپ رابَڑیانامی اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو شیئر کیا گیاہے۔ویڈیو میں ایک شخص آفس میں کھڑی خاتون کو بوسہ لے رہاہے۔پوسٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ گجرات میں اجے راج پوت نامی بی جے پی لیڈر نے اسکول جاکر خاتون ٹیچر کے ساتھ چھیڑخانی کی ہے۔

 

پھر ہم نے اس ویڈیو کی تفصیل سے تفتیش شروع کی۔تب ہمیں ایک ٹویٹر اکاؤنٹ ملا۔جہاں تقریباً دومہینے پہلے اسی دعوے کے ساتھ  کئی پوسٹ ملے۔ جس میں اسی طرح کا جملہ لکھاتھا۔

 

 

 

چھیڑخانی والےویڈیوکے بارے میں مزید تحقیقات شروع کی۔پھر ہم نےمختلف کیورڈس کے ذریعے گوگل سرچ کیا۔تب ہمیں دوہزار پندرہ میں شائع آج تک کی ایک خبرملی۔جس میں لکھا تھا کی گجرات کے تاپی میں بی جے پی کےایک کارکن نےکمپیوٹرٹیچرکا جبراً بوسہ لیاتھا۔جس کے بعد اس کا یہ گھنونہ ویڈیو وائرل ہواتھا۔اس کارکن کا نام اجےراپوت ہی ہے۔راج پوت نَونِرمان سیوا تنظیم چلاتاہے۔وہ خود کو مہووا اسمبلی کےبی جے پی ایم ایل موہن ڈوڈیا کا پی اے بھی بتاتاہے۔

 

 

بتایا جارہاہے کہ اجے جس ادارے کوچلاتاہے۔وہاں آدیواسی بچوں کوکمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے۔جہاں ایک آدیواسی خاندان سے تعلق رکھنے والی لڑکی بچوں کو پڑھاتی ہے۔جس کے ساتھ اجے راج پوت پراس گھنونے کام کو انجام دینے کاالزام لگایاگیاتھا۔جس کے بعد تمام میڈیا میں اجے راج پوت کو بی جے پی کالیڈربتایاگیاتھا۔

 

اتناہی نہیں جب ہم نے مزید تحقیقات شروع کی۔تب ہمیں گجراتی اخباردیویا بھاسکر میں اکتیس مئی دوہزارپندرہ کوشائع ایک خبرملی۔جس میں لکھاہے کہ بی جے پی نے پریس کانفرنس کرکے واضح کردیا تھاکہ اجےراج پوت کا بی جے پی سے کسی بھی طرح کاکوئی تعلق نہیں ہے۔کانفرنس میں مزید کہاگیاتھاکہ اجے راج پوت نے بی جے پی لیڈر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیاہے۔اس لئے اجے کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔

 

وہیں دوسری جانب ایک مقامی چینل کا ویڈیو ملا۔جس میں یہ دکھایا گیاہےکہ اجے راجپوت کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

 

 

اب ان ساری تحقیقات سے صاف واضح ہوتاہےکہ یہ معاملہ دوہزار انیس کا نہیں بلکہ چار سال پراناہے ۔جس کے ذریعے عوام میں بی جے پی کے خلاف بھرم پھیلایا جارہا ہے۔

 

 

 

     ٹولس کا استعمال

  • فیس بُک سرچ
  • ٹویٹر ایڈوانس سرچ
  • گوگل کیورڈس سرچ

            نتائج:گمراکُن

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular