اتوار, دسمبر 8, 2024
اتوار, دسمبر 8, 2024

HomeFact CheckFact Check:کیا یہ ویڈیو رجب طیب اردوغان کو گرفتار کرنے آئی فوج...

Fact Check:کیا یہ ویڈیو رجب طیب اردوغان کو گرفتار کرنے آئی فوج پر عوام کے حملے کی ہے؟

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو خوب گردش کر رہی ہے۔ جس کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ترکیہ صدر رجب طیب اردوغان کو گرفتار کرنے آئی فوج پر عوام نے حملہ کر دیا۔ ایک فیس بک صارف نے ویڈیو کے کیپشن میں لکھا ہے کہ “ترکی میں جب فوج طیب رجب اردگان کو گرفتار کرنے آئی تو عوام نے کچھ اس طرح ان کا استقبال کیا”۔

ترکیہ صدر طیب رجب اردوغان کو گرفتار کرنے کا بتاکر شیئر کی گئی ویڈیو ترکی کی نہیں ہے۔
Courtesy: FB/Aghajaffarpti

مذکورہ دعوے کے ساتھ ویڈیو کو پاکستانی صارفین اور عمران خان کے حمایتی خوب شیئر کر رہے ہیں۔ جس کا آرکائیو لنک یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

Fact Check/Verification

رجب طیب اردوغان کو گرفتار کرنے آئی فوج پر عوام کی جانب سے حملے کا بتا کر شیئر کی گئی ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لئے سب سے پہلے ہم نے انوڈ کی مدد سے ویڈیو کو کیفریم میں تقسیم کیا اور اسے ین ڈیکس اور گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ جہاں ہمیں آئی آن فلسطین نامی انسٹاگرام پر 29 جولائی 2021 کو شیئر شدہ وائرل ویڈیو سے ملتی جلتی ویڈیو ملی۔ جس میں اس ویڈیو کو اسرائیلی فوج کے رام اللہ پر علی الصبح کئے گئے حملے کے دوران فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا بتایا گیا ہے۔

Instagram will load in the frontend.

اس کے علاوہ وائرل ویڈیو کا کچھ حصہ فلسطینی نیوز ایجنسی جے میڈیا نیوز کی فیس بک پیج پر بھی ملا۔ جسے 29 جولائی 2021 کو فلسطین کے رام اللہ شہر کا بتاکر شیئر کیا گیا تھا۔

مزید سرچ کے دوران ہمیں عمر ابو رب نام کے یوٹیوب چینل کا لنک فراہم ہوا۔ ہم نے جب عمر کے یوٹیوب چینل کو کھنگالا تو وہ سبھی مناظر والی ویڈیوز ملیں، جنہیں ایک ساتھ جوڑ کر ترکیہ صدر رجب طیب اردوغان کو گرفتار کرنے آئی فوج پر حملے کا بتاکر شیئر کیا جا رہا ہے۔

وائرل ویڈیو کے 7 سکینڈ کے بعد والے مناظر کو عمر کے یوٹیوب چینل پر موجود اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جسے 5 مارچ 2020 کو اسرائیلی فوج پر رام اللہ کے الطیرہ علاقے میں کاکٹیل کی بوتلوں میں آگ لگا کر حملہ کرنے کا بتایا گیا ہے۔

عمر ابو رب چینل پر 22 جنوری 2022 کو اپلوڈ شدہ ویڈیو میں وہی مناظر دیکھے جا سکتے ہیں جسے سوشل میڈیا پر ترکیہ صدر اردوغان کا بتاکر شیئر کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو کو جب ہم نے غور سے دیکھا تو ایک دکان کے اوپر لگا بورڈ نظر آیا۔ جس پر عربی میں بِسُرَاءِ، للبرادی والفرش المنزلی، 022962404 لکھا ہوا تھا۔ ہم نے صرف فون نمبر کو گوگل پر سرچ کیا۔ جہاں ہمیں “بيتك للبرادي والفرش المنزلي” نامی فیس بک پیج پر وہی لوگو والا امیج ملا، جو وائرل ویڈیو میں نظر آرہا ہے۔

فیس بک پیج پر دی گئی معلومات کے مطابق یہ بورڈ فلسطین کے رام اللہ کے الماصيون رفات اسٹریٹ میں موجود ایک ہوٹل کا ہے۔ یہاں یہ واضح ہو چکا کہ وائرل ویڈیو کا ترکیہ صدر رجب طیب اردوغان کی گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سرچ کے دوران ہمیں 2020 کی کچھ میڈیا رپورٹس بھی ملیں۔ جس میں مولوٹ کاکٹیل سے اسرائیلی فوج پر فلسطینیوں کے حملے ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹس یہاں، یہاں اور یہاں پڑھیں۔

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوا کہ ترکیہ صدر رجب طیب اردوغان کو گرفتار کرنے آئی فوج پر عوام کے حملے کا بتاکر شیئر کی گئی ویڈیو فلسطین کے رام اللہ شہر کی ہے۔

Result: False

Our Sources

Instagram post by eye.on.palestine on JULY 29, 2021
Facebook post by JMedia News on JULY 29, 2021
Video Uploaded by omaraburub 2020/2021/2022
Facebook post by baitoqi.tex
Self Analysis by Newschecker

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کرسکتے ہیں۔ 9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular