جمعرات, دسمبر 19, 2024
جمعرات, دسمبر 19, 2024

HomeFact Checkمندر میں تشدد کا شکار ہوئے آصف کے نام پر یمنی بچے...

مندر میں تشدد کا شکار ہوئے آصف کے نام پر یمنی بچے کی تصویر ہوئی وائرل

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

فیس بک یوزر ثنا علی نے “اللہ کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی” نامی پیج پر ایک بچے کی تصاویر شیئر کی ہیں۔آصف کے نام سے دو تصاویر سستا میڈیا ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کی جارہی ہے۔ یوزر نے لکھا ہے کہ “نئے بھارت میں مندر کے پاس نہ آصفہ محفوظ ہے نا آصف“۔

آصف کے نام سے وائرل تصویر کا آرکائیو لنک۔
آصف کے نام سے وائرل تصویر کا آرکائیو لنک۔

ملک بھر میں گزشتہ کئی سالوں سے اقلیتی طبقے کے لوگوں کو کبھی گائے، کبھی بچہ چوری تو کبھی جےشری رام جبراً کہلوا کر ہجومی تشدد کا شکا ر کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اب تک کئی جانیں بھی جا چکی ہیں۔ بتادوں کہ ماب لنچنگ کا آغاز 15 اگست 1947 کو ہی ہوا تھا، جب ملک آزاد ہوا اور بھارت-پاکستان دوممالک کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اسی کے پیش نظر وقتاً فوقتاً فرضی ،گمراہ کن اور غلط دعوے کے ساتھ سوشل میڈیا پر کئی پوسٹ شیئر کئے جا چکے ہیں۔

حال ہی میں دہلی سے متصل غازی آباد میں آصف نامی بچے کو مندر کے احاطے میں محض اس لئے بے دردی سے مارا پیٹا گیا کیونکہ وہ مندر میں پانی پینے آیا تھا۔ حالانکہ پولس اس معاملے میں مجرم کو گرفتار کرچکی ہے۔ آصف کے نام سے سوشل میڈیا پر دو تصاویر خوب گردش کررہی ہے۔ جس کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مندر کے پاس نہ آصفہ محفوظ ہے اور نا ہی آصف۔ آپ کو بتا دیں کہ جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو عصمت دری کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

علیشا کے پوسٹ کا آرکائیو لنک۔

آصف کے نام سے وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک۔

مذکورہ دعوے کا جب ہم نے کراؤڈٹینگل پر ڈیٹا نکالا کہ اس موضوع پر کتنے لوگ فیس بک پر گفتگو کررہے ہیں تو ہمیں سرچ کے دوران پتاچلا کہ پچھلے سات دنوں میں 22421 یوزرس نے اس موضوع پر تبصرہ کیا ہے۔ جس کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔

آصف کے حوالے سے کراؤڈ ٹینگل پر ملے ڈیٹا کا اسکرین شارٹ۔
آصف کے حوالے سے کراؤڈ ٹینگل پر ملے ڈیٹا کا اسکرین شارٹ۔

Fact check / Verification

سوشل میڈیا پر وائرل تصویر کی سچائی جاننے کےلئے ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات شروع کی۔ سب سے پہلے ہم نے دونوں تصاویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔ جہاں ہمیں کئی لنک فراہم ہوئے جو 2020 کے تھے۔ جس کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔

ریورس امیج سرچ کے دوران ملی جانکاری سے معلوم ہوا کہ وائرل تصویر پرانی ہے۔ پھر ہم نے اسکرین پر ملی جانکاری سے متعلق کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں یمن ناؤ نیوز اور کریٹراسکائی نامی عربی ویب سائٹ پر وائرل تصاویر ملیں۔ جسے 4 اکتوبر 2020 کو شائع کیا گیا تھا۔ جب ہم نے اسے گوگل ٹرانسلیٹ کیا تو پتاچلا کہ اس بچے کی پٹائی کسی غیر مسلم نے نہیں کی ہے بلکہ اس کے والد نے اسکے جسم کی یہ حالت کی ہے۔

آصف کے نام سے وائرل تصویر کے حوالے سے ملی جانکاری
آصف کے نام سے وائرل تصویر کے حوالے سے ملی جانکاری

پھر ہم نے المحویت کو گوگل میپ پر سرچ کیا کہ اس نام کا شہر کس ملک میں ہے؟ تب ہمیں پتاچلا کہ یہ شہر یمن کی دارالحکومت ہے۔

پھر ہم نے مزید کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں صحافۃ 24نامی عربی ویب سائٹ پر وائرل تصویر کے ساتھ ایک خبر ملی۔ جب ہم نے اسے عربی کے زبان کے ماہر معاویہ سے ٹرانسلیٹ کروایا تو پتا چلا کہ یہ تصویر بھارت کی نہیں ہے۔ بلکہ یمن کی دارالحکومت المحویت کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بچے کا نام شماخ راشد القهيلي ہے۔اس کے والد نے اچھی تربیت کی خاطر اسے ماراپیٹا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کے جسم پر شدید چوٹ آئی تھی۔

Conclusion

نیوچیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ آصف کے نام سے وائرل تصویر یمن کے المحویت شہر کے بارہ سالہ بچہ شماخ راشد القهيلي کی ہے نہ کہ غازی آباد کی مندر میں آصف نامی بچے کی پٹائی کی ہے۔


Result: Partly False


Our Source


Crater:https://cratersky.net/posts/49127

YNN:https://yemennownews.com/article/1022426

Sahafah:https://www.sahafah24.net/news13748775.html

map:https://www.google.com/maps/place/Al+Mahwit,+Yemen/@15.4687873,43.5379602,16z/data=!3m1!4b1!4m5!3m4!1s0x160410a9bc1c994d:0x2c2649fe65b3fb2!8m2!3d15.4687838!4d43.5462744


نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular