Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
دعویٰ
بابری مسجد کی لہو لہو سرزمین پر فرزندان توحید کی جانب سےاداکی گئی آخری نماز کے دو مناظر۔اب شاید کبھی بھی یہاں پر تکبیر کی صدائیں نہ گونجیں۔
اناللہ وانا الیہ راجعوناے میرے اللہ ہماری مسجد
Fact Check/ Verification
بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازع پر فیصلہ آنے کے بعد کوئی فرقہ خوش ہے تو کوئی رنجیدہ۔ دونوں فرقوں کے لوگ مختلف انداز میں اپنے سوشل میڈیا ہیڈل پر عجیب و غریب پوسٹ شیئر کررہے ہیں۔ایسے ہی کچھ پوسٹ بابری مسجد کے تعلق سے کیاجا رہاہے۔کچھ تصویروں کو فیس بک، ٹویٹر و دیگر سوشل میڈیا پر شیئر کیاجارہاہے اور اس پر دعویٰ کیا جارہاہے کہ یہ بابری مسجد ہے۔ جس میں فرزندان توحید آخری بار نماز ادا کررہے ہیں۔اب شاید کبھی بھی یہاں تکبیر کی صدائیں نہیں گونجیں گی۔ اس طرح کے دعوے کئے گئے ہیں۔
اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن
انڈیا میں (بابری مسجد) کی لہو لہو سرزمین پر فرزندان توحید کی جانب سے ادا کی گئی آخری نماز کے دو مناظر !
اب شاید کبھی بھی یہاں پر تکبیر کی صدائیں نہ گونجیںاَللّهُ اَكْبَر pic.twitter.com/ogp1kurPhP
— توشی خان زرداری ( Official ) (@imToshikhan) November 11, 2019
ان تصویروں کو دیکھنے اور اس کے ساتھ کئے گئے پوسٹ کو پڑھنےکے بعد ہم اپنا ریسرچ شروع کیے۔اس دوران ہم نے اویسم اسکرین شورٹ کی مدد لی۔پھرکچھ کیورڈ کی مدد سے گوگل سرچ امیج کیا۔جہاں ہمیں الجزیرہ کے عربی ویب سائٹ پر یہ تصویر ملی۔”اتهام قادة هندوس بتدمير مسجد بابري“جس کا ترجمہ ہے کہ ہندورہنماؤں پر بابری مسجد کوتباہ کرنے کا الزام ہے۔
ان تحقیقات کو جاری رکھتے ہوئے ہم نے مزید تفتیش شروع کی۔ پھر ہم نے یوٹیوب سرچ کیا۔جہاں ہمیں وہی تصویر ویڈیو کی شکل میں یوٹیوب پر ملا۔جس میں ایک خاتون جوکہ مائنوریٹیز نیوز چینل کابوم لئے فیروز شاہ کوٹلہ کےبارے میں رپورٹںگ کررہی ہے۔اس کے علاوہ دیگر ویڈیو میں پوری تصویر وغیرہ ہے۔
ان تحقیقات سے پتا چل گیا کہ یہ تصویر بابری مسجد کی نہیں بلکہ فیروز شاہ کوٹلہ کی ہے۔تب ہم نے سوچا کیوں نہ کھوج کی جائے کہ یہ تصویر کب کی ہےاور کس موقع پر شیئر کیا گیاہے۔تب ہمیں بابری مسجد سے منسوب وائرل تصویر اِن ڈاٹ کام پر ملی۔جس میں لکھا ہے کہ یہ تصویر دوہزار گیارہ کی ہے۔جسے عیدالاضحیٰ کے موقع پر شیئر کیا گیاہے۔
ان تحقیقات سے دل نہیں بھراتو ہم نے مزید باریکی سے وائرل تصویر کی تحقیق شروع کی۔اس دوران ہمیں یہی تصویر ایپ ٹاپِکس پر ملی۔جس میں یہ پتاچلا کہ یہ تصویر دوہزار آٹھ کی ہے۔جوکہ عیدالاضحیٰ کے موقع پرنمازیوں کی تصویر کیمرے میں قید کی گئی ہے۔
Conclusion
ہماری تحقیق میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل پوسٹ کے ساتھ شیئر کی گئی تصویر بابری مسجد کی نہیں بلکہ فیروز شاہ کوٹلہ دہلی کی ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اس طرح کے پوسٹ کئے گئے ہیں۔
ٹولس کا استعال
گوگل کیورڈ سرچ
ٹویٹر ایڈوانس سرچ
یوٹیوب سرچ
گوگل اویسم سرچ
نتائج :جھوٹی خبر
نوٹ:۔ اگر آپ ہمارے ریسرچ پر اتفاق نہیں رکھتے ہیں یا آپ کے پاس ایسی کوئی جانکاری ہے جس پر آپ کو شک ہےتو آپ ہمیں نیچے دیگئی ای میل آڈی پر بھیج سکتے ہیں۔
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.