جمعرات, مارچ 28, 2024
جمعرات, مارچ 28, 2024

ہومFact Checkکیا سعودی عرب میں مسجد کے امام کو حکومت کے خلاف بولنے...

کیا سعودی عرب میں مسجد کے امام کو حکومت کے خلاف بولنے پر پھانسی دے دی گئی؟

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

ان دنوں سوشل میڈیا پر 23 سیکینڈ کا ایک ویڈیو خوب گردش کر رہا ہے۔ جس میں ایک شخص کو کچھ لوگ ممبر سے ہٹاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ صارفین کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب میں ایک مسجد کے امام نے جب سعودی حکومت کے خلاف خطبہ دیا تو انہیں وہاں کی پولس نے گرفتار کر کے پھانسی پر لٹکا دیا۔

سعودی عرب میں مسجد کے  امام کے حوالے سے وائرل پوسٹ کا اسکرین شارٹ
سعودی عرب میں مسجد کے امام کے حوالے سے وائرل پوسٹ کا اسکرین شارٹ

فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب پر 23 سیکینڈ کے ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سعودیہ میں ایک مسجد کے امام نے موجودہ سعودی حکومت کو دینی لحاظ سے ناکام بتایا، ساتھ ہی امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ کہا تو سکیورٹی فورسز نے انہیں ممبر رسول سے اٹھایا اور پھرپھانسی بھی دے دی۔ اگر سعودی کے پاک سرزمین پر امام کو پھانسی دی جاتی ہے اور وہ بھی حق بات بولنے پر تو دور نہیں کہ اللہ کا عذاب جلد آئے گا۔ اس ویڈیو کو متعد یوزرس نے شیئر کیا ہے۔ جسے آپ درج ذیل میں دیکھ سکتے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=WgQDbrm37k0

وائرل پوسٹ کے آرکائیو لنک یہاںیہاں, یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیں۔

کراؤڈ ٹینگل پر جب ہم نے سعودی عرب میں حکومت کے خلاف بولنے والے ایک امام کو پھانسی دینے والے وائرل ویڈیو کے ساتھ کئے گئے دعوے سے متعلق کیورڈ سرچ کیا تو ہمیں پتا چلا کہ اس موضوع پر پچھلے 7 دنوں میں 20,654 فیس بک صارفین تبادلہ خیال کر چکے ہیں۔ جس کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔

Fact Check/ Verification

سعودی امام کے حوالے سے وائرل ویڈیو کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ہم نے ویڈیو کو انوڈ کی مدد سے کیفریم میں تقسیم کیا اور ان میں سے کچھ فریم کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ لیکن ہمیں کچھ بھی اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔ پھر ہم نے ین ڈیکس سرچ کیا، جہاں ہمیں اسکرین پر وائرل ویڈیو سے متعلق کئی لنک فراہم ہوئے۔ جس کا اسکرین شارٹ آپ درج ذیل میں دیکھ سکتے ہیں۔

اب ہم نے وائرل ویڈیو سے متعلق کیورڈ سرچ کیا تو ہمیں الیوم اور اخبار24 نامی عربی ویب سائٹ پر وائرل ویڈیو سے متعلق ایک فریم کے ساتھ 3 فروری 2018 کی ایک خبر ملی۔ رپورٹ میں سرکاری ترجمان ماجد بن غالب آل محمدی کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے کہ ینبع الخیر کی مسجد الجابریہ کے ممبر پر سرکاری امام کے پہنچنے سے پہلے ایک شخص نے ممبر پر جبراً خطبہ دینےکی کوشش کی۔لیکن وہاں موجود سیکیورٹی نے اسے ہٹا دیا۔بتایا گیا ہے کہ وہ شخص دماغی طور پر معذور بھی تھا۔

کیا سعودی میں مسجد کے امام کے حوالے سے کیا ہے وائرل ویڈیو کا سچ؟

مزید سرچ کے دوران ہمیں عربی کی معروف المرصد، الریاض اور فضاء نامی ویب سائٹ پر وائرل ویڈیو سے متعلق تین سال پرانی خبریں ملیں۔ رپورٹ کے مطابق ویڈیو میں نظر آرہا شخص جمعہ کے دن 12:35 پر سرکاری امام کے آنے سے پہلے خطبہ دینے لگا۔ جسے مدینہ منورہ کی پولس نے موقع پر ممبر سے ہٹا دیا۔ رپورٹ میں کہیں بھی گرفتاری اور پھانسی دینے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ مسجد میں جبراً خطبہ دینے والا شخص نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے۔ جس کے علاج کا ریکارڈ اسپتال میں موجود ہے۔بتادوں کہ بعد میں اسے ان کے اہل خانہ کے سپرد کر دیا گیا تھا۔۔

سرچ کے دوران ہمیں العربیہ عربی اور اردو نیوز نامی ویب سائٹ پر بھی معلومات فراہم ہوئیں۔ جس میں کہیں بھی مسجد الجابریہ میں خطبہ دینے والے شخص کے حوالے سے یہ ذکر نہیں ہے کہ اسے موجودہ حکومت کے خلاف بولنے پر پھانسی دے دی گئی ہے۔ بلکہ یہ ضرور لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں اسلامی امور کی وزارت کے سرکاری ترجمان ماجد المحمدی نے اپنے بیان میں کہا کہ متعلقہ ادارہ کے افراد نے مسجد پہنچ کر اس نفسیاتی مریض کو وہاں سے ہٹا دیا پھر اس کے بعد مسجد کے سرکاری خطیب نے آکر جمعہ کا خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں ثابت ہوتا ہے کہ سعودی کے ایک امام کو حکومت کے خلاف بولنے پر پھانسی دینے والی خبر فرضی ہے۔ میڈٰیا رپورٹ کے مطابق ویڈیو میں نظر آرہا شخص مسجد کا امام نہیں تھا، بلکہ ایک عام شخص تھا جو دماغی طور پر ضعیف تھا وہ بغیر اجازت ممبر پر خطبہ دینے کھڑا ہو گیا تھا۔ جسے سعودی سیکیورٹی نے وہاں سے ہٹا دیا تھا۔

Result: False

Our Sources

Alyaum

Akhbar24

Al marsd

Al Riyadh

Al Arabiya

UrduNews

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular