Authors
Claim
یہ ویڈیو اور تصویر بھارتی فوج کے بنگلہ دیش میں داخل ہو نے کی ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے مظاہرے کو دبانے کے لئے بھارت سے مدد مانگی تھی۔
Fact
وائرل دعویٰ بے بنیاد ہے، ویڈیو پرانی ہے اور تصویر ڈھاکہ کے ایک ایئرپورٹ کی ہے۔
صارفین نے ایک ویڈیو اور تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ “بھارتی فوج کی ایک کمپنی مغربی بنگال سے بنگلہ دیش میں داخل ہو رہی ہے۔ حسینہ حکومت نے کرفیو نافذ کر دیا اور احتجاج کو کچلنے کے لئے بھارت سے مدد بھی مانگی۔ خون کی پیاسی ہندوتوا حکومت مسلمانوں کو قتل کرے گی اور حسینہ کو اقتدار میں رکھے گی”۔
رواں ماہ کی 24 تاریخ کو شائع ہونے والی انڈیپنڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہزاروں طلبہ کئی دنوں سے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پرُ تشدد مظاہرے کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں اب تک 150 افراد کی اموات ہوچکی ہے۔
اب اسی واقعے سے منسوب کرکے ایک ویڈیو و تصویر شیئر کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت نے بھارت سے مدد مانگی ہے جس کے بعد مغربی بنگال سے بنگلہ دیش میں بھارتی فوج کی ایک کمپنی داخل ہو رہی ہے تاکہ بنگلہ دیش میں ہو رہے طلباء کے احتجاج کو روکا جا سکے۔
وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں، یہاں، یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیں۔
Fact Check/Verification
ہم نے ویڈیو اور تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوے کی تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ یہ فرضی خبر ہے۔ کیونکہ بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے بھارتی فوج کو بلائے جانے سے متعلق کوئی بھی سرکاری اعلان یا میڈیا رپورٹ شائع نہیں کی گئی ہے۔ البتہ تحقیقات کے دوران ہمیں وزارت خارجہ کے آفیشل ایکس ہینڈل پر 21 جولائی 2024 کو شیئر شدہ سرکاری پریس ریلیز ملا۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہائی کمیشن کی جانب سے سرحدی کراسنگ پوائنٹس پر بھارتی شہریوں کو محفوظ مقام تک پہنچانے کے لئے حفاظتی دستے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔
مذکورہ دعوے کے ساتھ شیئر کی گئی ویڈیو کے ایک فریم کو گوگل ین ڈیکس سرچ کیا۔ جہاں ہمیں آئی ایم آیوش پرجاپتی نامی انسٹاگرام ہینڈل پر 19 مئی 2022 کو شیئر ہوبہو ویڈیو فراہم ہوئی۔ جس سے پتا چلا کہ بھارتی فوج کے ٹرک والی یہ ویڈیو 2022 سے انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
اسی طرح سرچ کے دوران ہمیں بنگلہ دیشی سائنس پر مبنی تعلیمی پلیٹ فارم بگیان پریو کے آفیشل فیس بک پیج پر ہوبہو تصویر موصول ہوئی۔ جس میں اس تصویر کو تیج گاؤں ایئر پورٹ (پرانا ہوائی اڈا)، اگرگاؤں، ڈھاکہ کا بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر ریڈر نیوز ویب سائٹ نے بھی بنگلہ دیش میں چل رہے مظاہرے اور بھارتی طلباء سے متعلق ایک آرٹیکل شائع کیا ہے، جس میں بھی اس تصویر کا استعمال کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں چل رہے حالیہ مظاہرے سے اس ویڈیو کا نہیں ہے کوئی تعلق
Conclusion
اس طرح انٹرنیٹ پر موجود شواہد سے یہ ثابت ہوا کہ بھارتی فوج طلباء کے مظاہرے کو کچلنے کے لئے بنگلہ دیش نہیں جا رہی ہے، شیئر کی جارہی تصویر اور ویڈیو کا بھی اس دعوے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
Result: False
Sources
X post by @MEAIndia on 21 July 2024
Instagram post by @_imayush_prajapati_ on 19 May 2022
Facebook post by bigyanpriyo on 18 July 2024
Report published by Kashmir Reader on 21 July 2024
نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے واٹس ایپ چینل کو بھی فالو کریں۔