ہفتہ, اپریل 20, 2024
ہفتہ, اپریل 20, 2024

ہومFact Checkکیا مسجد کے امام پر آر ایس ایس یا بی جے پی...

کیا مسجد کے امام پر آر ایس ایس یا بی جے پی کارکن نے کیا جان لیوا حملہ ؟ پڑھیئے خصوصی تحقیق

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

دعویٰ

نفرتوں کی انتہا ہوگئی بزدل سنگھیوں۔

گیارہ بجے رات میں لکھنؤ کے جیل روڈ پر موجود مسجد کے امام مولانا عبدالمقیم صاحب پر نیچ ،بزدل سنگھیوں اور بجرنگیوں نے تلوار سے جانلیوا حملہ کیا۔

اللہ نے حفاظت فرمائی۔

مسجد سنی وقف بورڈ کی ہے۔لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ بورڈ اس معاملے پر لاپرواہی کرےگا۔تاکہ ان قائروں پر کسی بھی طرح کی کاروائی نہ ہو سکے اور بورڈ والوں کی گد٘ی محفوظ رہے۔

تصدیق

لکھنؤ جیل روڈ پر موجود مسجد کے امام پر جانلیوا حملہ ہوا۔جس کے تعلق سے سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے امام کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ امام عبدالمقیم کو دیر رات سنگھیوں اور بجرنگیوں نے جان سے مارنے کی کوشش کی۔ اس پوسٹ کو ہزاروں لوگوں نے شیئر اور لائک،کمنٹ کیاہے۔

ہماری تحقیق

گذشتہ دنوں لکھنؤ میں واقع جیل روڈ پر ایک مسجد کے امام پر رات کے گیارہ بجے جانلیوا حملہ کیا گیا۔اس بارے میں مخلتف لوگوں نے سوشل میڈیا پرمختلف رائے پیش کی ہے۔کئی پوسٹوں کو پڑھنے کے بعد ہم نے سوچا کیوں  نہ اس معاملے کی باریکی سے تحقیق کی جائے۔پھر ہم نے گوگل سرچ کیا۔جہاں ہمیں اس تعلق سے کافی خبریں ملی۔جس میں امام صاحب پر ہوئے جانلیوا حملے کو لےکرجانکاری تھی۔

ان وائرل پوسٹ اور خبروں کو پڑھنے کے بعد ہم نے سوچا کیوں نہ اس کی تحقیق جائے واقع پر جاکر کی جائے۔پھر ہم نے دہلی سے لکھنؤ کا سفر کیااور اس مسجد میں گئے۔جہاں امام عبدالمقیم رہتے ہیں۔وہاں پہنچ کر امام عبدالمقیم سے خاص ملاقات کی۔ پھر ہم نے ان پر ہوئے جانلیواحملے کے بارے میں سوال کیا۔ابتدائی پوچھ تاچھ میں عبدالمقیم نے بتایاکہ رات کے تقریباً گیارہ بجےوہ اپنے کمرے میں سورہے تھے۔تبھی ایک شخص کمرہ میں آیا جو کالے رنگ کا کپڑا پہنے ہوئے تھے اور ہاتھ میں کچھ لوہے یا پیتل کاراڈ لئے ہوئے تھے۔ جب اس کی آہٹ ملی تو عبدالمقیم باہر آئے۔تبھی اس شخص نے اچانک سے امام عبدالمقیم پر حملہ کردیا۔اس دوران حملہ ور نے امام کے سراورہاتھ پر ہتھیار جیسی چیز سے وار کیا۔شروعاتی جانچ میں بتایا گیا ہے کہ امام کے ہاتھ اور سر پر ہلکی چوٹ آئی ہے۔لیکن حقیقت اس سے پرے تھی۔میں جب وہاں پہنچا تو دیکھا امام عبدالمقیم کے ہاتھ پر پلاسٹر چڑھاہوا ہے۔

کچھ دیر بعد میں نے مسجد کے ارد گرد کا چکر لگایا۔جہاں چارو جانب دکانیں بنی تھی۔جن میں گیرج اور گلدستہ دان کی دکانیں تھی۔وہاں موجود کئی لوگوں سے پوچھ تاچھ کی۔لیکن کسی نے بھی صحیح سے اس بارے میں نہیں بتایا۔ایک گیرج ورکر نے بتایا کہ جب امام عبدالمقیم پر حملہ ہوا وہ اس وقت وہاں سے گھر جاچکے تھے۔

ان تحقیقات کے باوجود ہم نے امام عبدالمقیم سے جاننا چاہا کہ کیا یہ سچ ہے کہ آپ پر بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے بندے نے حملہ کیاہے؟تب انہوں نے کیا کہا آپ خود سنئیے۔۔

ان تحقیقات کے باوجود ہم نے مزید جانکاری کے لئے سی ای او سے ملاقات کے لئے فون کال کیا۔لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ یہ معاملہ پرانہ ہوچکا ہے۔اس معاملے کے ملزم کو گرفتار کرلیاگیاہے۔ان سب کے باوجود ہم نے لکھنؤ پولیس کا ٹویٹر ہنڈل کھنگالا۔جہاں ہمیں اس سلسلے میں ایک ٹویٹ ملا ۔جس میں ملزم کی گرفتاری لکھا ہے۔

خصوصی تحقیقات اور امام عبدالمقیم سے خاص بات چیت سےصاف واضح ہوتاہے کہ کسی شرپسند عناصر نے نہیں بلکہ ایک دماغی طور پر معذور شخص نے ان پر جان لیوا حملہ کیا۔وہاں ملزم شخص چوری کی نیت سے آیاتھا۔کچھ نہ ملنے پر وہاں موجود امام عبدالمقیم کے سر اور ہاتھ پر ہتھیار نما شئے سے حملہ کردیا۔جس میں امام عبدالمقیم کافی زخمی ہوئے ہیں۔ہاتھ میں پلاسٹر لگاہے۔

نوٹ:۔ اگر آپ ہمارے ریسرچ پر اتفاق نہیں رکھتے ہیں یا آپ کے پاس ایسی کوئی جانکاری ہے جس پر آپ کو شک ہےتو آپ ہمیں نیچے دیگئی ای میل آڈی پر بھیج سکتے

checkthis@newschecker.in

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular