اتوار, دسمبر 22, 2024
اتوار, دسمبر 22, 2024

HomeFact Checkکیا راجا پکشے کے بیٹے کی لگژری گاڑیوں میں لگی آگ کی...

کیا راجا پکشے کے بیٹے کی لگژری گاڑیوں میں لگی آگ کی ہے یہ ویڈیو؟ سج جاننے کے لئے پڑھیں پوری تحقیقات

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

(اس مضمون کو پہلے نیوز چیکر انگریزی ٹیم کے پنکج مینن نے شائع کیا ہے)

سوشل میڈیا پر لگژری گاڑیوں کی ایک ویڈیو شیئر کی جا رہی ہے۔ صارف کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو میں نظر آرہی لگژری کاریں سری لنکا کے وزیر اعظم راجا پکشے کے بیٹے کی ہے، جسے لوگوں نے نذر آتش کر دیا۔

راجا پکشے کے بیٹے کی لگژری گاڑیوں میں لگی آگ کی نہیں ہے یہ ویڈیو
Courtesy:Twitter@KhurramSifaat

سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے شروع ہوا احتجاج خانہ جنگی کی طرف رخ لیتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق سری لنکا میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ مظاہرین وزیر اعظم راج اپکشے اورکئی اراکین اسمبلی کے گھروں کو جلا دیا گیا ہے۔ حالانکہ پیر کے دن وزیر اعظم مہندا راجا پکشے نے استعفٰی دیا تھا، لیکن اس کے باوجود تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ پیر کے دن سے اب تک رکن اسمبلی سمیت 7 افراد کی جانیں جا چکی ہیں، جبکہ 190 لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔

اسی واقعے سے جوڑ کر 30 سیکینڈ کی ایک ویڈیو شیئر کی جا رہی ہے، جس میں 16 سیکینڈ تک لگژری گاڑیوں کو دیکھا جا سکتا ہے، بقیہ حصے میں گاڑیاں جلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ویڈیو سے متعلق کچھ صارفین کا دعویٰ ہے کہ یہ لگژری کاریں سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکشے کے بیٹے کی ہیں تو کچھ انہیں وزیر اعظم کی ذاتی کار بتا رہے ہیں تو کچھ ان کی بیٹی کی کار کلیکشن بتا رہے ہیں، جسے وہاں کی عوام نے ملک دیوالیا ہونے کے بعد نذر آتش کردیا ہے۔

Fact Check/Verification

ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے کیورڈ “راجا پکشے کے بیٹے”، ” جلی ہوئی کار” سرچ کیا۔ جہاں ہمیں وائرل ویڈیوز سے ملتی جلتی دیگر کئی ویڈیوز ملیں، جس میں بھی لگژری گاڑیوں کو جلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو کے کمنٹ سیکشن کو غور سے دیکھنے پر ہم نے پایا کہ کئی صارفین کمنٹ میں ویڈیو کے ساتھ دی گئی تفصیلات کو غلط بتا رہے ہیں اور گاڑیوں کی پہچان سری لنکا کے ہوٹل ایونرا گارڈن کی گاڑیوں کے طور پر کی گئی ہے۔

ایونرا گارڈن اور جلتی ہوئی گاڑیوں جیسے مزید کیورڈ سرچ کے دوران ہمیں اس حادثے سے متعلق تفصیلی رپورٹ ملیں۔

Courtesy:Youtube/News Cutter

سب سے پہلے ہمیں دی ٹالک ٹوڈے ڈاٹ کام پر ایک رپورٹ ملی، جس کے مطابق سری لنکا کے نیگومبو کے مریگاما روڈ پر واقع ایونرا ہوٹل اور اس کے احاطے میں کھڑی ۔ لگژری گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ آرٹیکل کے مطابق اس ہوٹل کے مالک کا نام سچتھ دی سیلوا ہے، اسے ہم نے ایک ثبوت کے طور پر استعمال کیا اور یہ کیورڈ سرچ کرنے پر ہمیں مزید معلومات فراہم ہوئے۔

سچتھ ڈی سیلوا کے لنکڈن پیج پر دی گئی معلومات کے مطابق وہ آسٹریلیا سے پڑھائی ختم کرنے کے بعد 2016 سے ایونرا گروپ کے ڈائیریکٹر ہیں۔ ان کے فیس بک پیج کو یکھنے پر پتا چلا کہ فینسی موبائل کی طرف ان کا کافی رجحان ہے اس پر بھی وائرل ویڈیو میں نظر آنے والی گاڑیوں کی کئی تصاویر بھی تھیں۔ ایک آن لائن رپورٹ کے مطابق ان کی ریسر بھی ہیں اور اعلیٰ طرز زندگی گزارتے ہیں۔ مجموعی ملکیت 10 ملین ڈالر ہے۔ حالانکہ اس سلسلے میں کوئی تصدیق شدہ رپورٹ نہی ملی۔

Courtesy:YouTube/
SUPER CARS

ایونرا گارڈن اور گاڑیوں جیسے کیورڈ ہم نے یوٹیوب پر بھی سرچ کئے، جہاں ہمیں ہو بہو ویسی ہی گاڑیاں دیکھنے کو ملی جو وائرل ویڈیوں میں نظر آ رہی ہیں۔

https://youtu.be/VxGnUtngv-I

کئی صارفین نے ایسی ہی وائرل ویڈیوز شیئر کی اور لکھا ہے کہ یہ ایونرا گارڈنس ہوٹل کی لگری گاڑیوں کا کلکشن ہے۔

ایک اور ٹویٹر صارف کا دعویٰ ہے کہ ایونرا ہوٹل کا مالک سری لنکا پوڈوجانا پیریمانا کا حامی تھا۔

Conclusion 

اس طرح نیوز چیکر کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل ویڈیو اوینرا گارڈن ہوٹل کی ہے، جسے مہندا راجا پکشے کے بیٹے کی لگژری گاڑیوں کا بتاکر شیئر کیا جا رہا ہے، جبکہ اس ہوٹل کا مالک سچتھ دی سیلوا ہیں۔

Result: Misleading/Partly False

Our Sources

Report Published By The Talks Today On 10th May 2022.

Tweet From A Handle @Kavinthans On 9th May 2022.

Tweet From A Handle @trendinglanka On 9th May 2022.

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular