Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میڈیا پر خاتون پر پولس کی زیادتی کی ایک تصویر کو کشمیر میں بھارتی فوج کی ظلم و زیادتی کا بتاکر شیئر کیا جا رہا ہے۔ ٹویٹر صارف نے تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ “انڈین آرمی اور کشمیری عورت”۔
ٹویٹر پر ایک دوسرے صارف نے خاتون پر پولس زیادتی کی اس تصویر کو بھارتی کشمیری مسلم سے جوڑ کر شیئر کیا ہے۔ صارف نے کیپشن میں ہیش ٹیگ فیسسٹ انڈیا کے ساتھ لکھا ہے کہ “یہ انڈیا کا مکروہ چہرہ بے جو پوری دنیا کشمیری مسلمانوں پر ظلم کی بہیمانہ حرکتوں کو دیکھ چکی ہے، لیکن بے حسی کا اتنا مظاہرہ کہ اندھے ہوئے پڑے ہیں۔ انسانیت نام کی چیز ہی نہیں”۔
مذکورہ تصویر کو انگلش کیپشن کے ساتھ بھارت کا بتاکر بھی شیئر کیا جا رہا ہے۔ جس کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔
وائرل پوسٹ کا آرکائیو لنک یہاں اور یہاں دیکھیں۔
Fact Check/Verification
خاتون پر پولس کی زیادتی کی وائرل تصویر کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات کا آغاز کیا۔ تصویر کو ہم نے سب سے پہلے گوگل لینس پر سرچ کیا۔ لیکن کچھ بھی اطمینان بخش نتائج نہیں ملے۔ تصویر کو غور سے دیکھا تو پیچھے دیوار پر لال رنگ سے کچھ لکھا ہوا نظر آیا، جب ہم نے مخصوص ٹولس کی مدد سے زوم کرکے دیکھا تو پتا چلا اس پر “فلسطین” لکھا ہوا ہے۔
مذکورہ تحقیقات سے ہمیں ایک اشارہ ملا کہ تصویر کشمیر کی نہیں ہے۔ پھر ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ کے ساتھ کچھ عربی کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں عربی 21 اور الرّاَئی نیوز ویب سائٹس پر اپریل 2013 اور مارچ 2015 کو شائع شدہ خبریں ملیں۔ جس میں خاتون پر پولس کی زیادتی والی تصویر کو مقبوضہ یوروشلم کا بتایا گیا ہے۔ لیکن ان رپورٹس میں کہیں بھی واضح دلیل پیش نہیں کی گئی ہے۔
ہم نے کچھ انگلش کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں گلف نیوز ویب سائٹ پر انگلش زبان میں 14 مارچ 2010 کی ایک رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ میں تصویر کے کیپشن میں ریوٹرس کے حوالے سے لکھا ہے کہ”رام اللہ شہر کے مغربی کنارے کے نزدیک موجود قلندیہ چیک پوائنٹ پر ایک فلسطینی خاتون اسرائیلی سرحد پولس کے ساتھ جھڑپ کر رہی ہے”۔
مزید کیورڈ سرچ کے دوران ہمیں الریاض ڈاٹ کام پر بھی وائرل تصویر کے ساتھ شائع شدہ 14 مارچ 2010 کی ایک رپورٹ ملی۔ جس میں اس تصویر کو فلسطینی خاتون کے گرفتار کئے جانے کا بتایا گیا ہے۔ سبھی رپورٹ میں آپ تصویر کے پیچھے واضح طور پر فلسطین لکھا ہوا بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اب مذکورہ رپورٹس سے واضح ہوتا ہے کہ خاتون پر پولس کی زیاتی والی وائرل تصویر کا تعلق بھارتی فوج اور کشمیری خاتون سے نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جموں کشمیر میں انکاؤنٹر کے بعد سوشل میڈیا پر گمراہ کن دعوے کے ساتھ ویڈیو اور تصاویر وائرل
Conclusion
اس طرح ہماری تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ خاتون پر پولس کی زیادتی والی وائرل تصویر کا بھارتی فوج اور کشمیری خاتون سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ یہ تصویر اسرائیلی بورڈ پولس کی جانب سے گرفتار کی گئی فلسطینی خاتون کی ہے۔
Result: Misleading
Our Sources
alray.ps:https://alray.ps/ar/post/104379/uploads/documents/ff88a489ab15a663fe50b8faf7064f48.pdf
arabi21.com:https://arabi21.com/story/815387/%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%AD%D8%AA%D9%84%D8%A7%D9%84-%D9%8A%D8%B9%D8%AA%D9%82%D9%84-%D8%B7%D9%81%D9%84%D8%A9-%D9%85%D9%82%D8%AF%D8%B3%D9%8A%D8%A9
GulfNews:https://gulfnews.com/uae/government/israel-must-drop-colony-plans-uae-1.596721
Ariyadh:https://www.alriyadh.com/506360
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.