Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میڈیا پر ایک بچے کی تصویر کو پاکستان کے پشاور کی مسجد میں ہوئے دھماکے کے دوران شہید بچے کا بتاکر شیئر کیا گیا ہے۔ ٹویٹر صارف نے تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ “پشاور مسجد میں دہشت گرد حملے میں اس معصوم نمازی کو شہید کرنے والے مسلمان ہی تھے۔ انڈیا اگر ملوث ہے پھر بھی کسی غیر مسلم سے حملہ نہیں کرایا مسلمان سے کروایا”۔
پاکستان کے پشاور میں گذشتہ 4 مارچ 2022 کو شیعہ مسلک کی جامع مسجد میں خودکش حملہ ہوا۔ بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حملے میں اب تک 62 افراد کی اموات ہو چکی ہے، اس حادثے میں 10 سال کے 7 بچے کی اموات بھی شامل ہیں۔ اس دھماکے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ اب اسی حادثے سے جوڑ کر سوشل میڈیا پر ایک زخمی بچے کی تصویر شیئر کی جا رہی ہے۔ وائرل تصویر سے متعلق صارف کا دعویٰ ہے کہ پشاور مسجد دھماکے میں یہ بچہ شہید ہو گیا ہے۔
فیس بک پر اس تصویر کو دیگر صارفین نے بھی شیئر کیا ہے۔ ایک صارف نے وائرل تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ “انا للہ و انا الیہ راجعون۔ یہ تو ہے یاد کہ ہر دور میں ہم قتل ہوئے،کس نے قاتل کو دیئے کتنے درہم یاد نہیں، پشاور مسجد میں شہید ہونے والے اس معصوم نمازی کی کھلی آنکھیں کس سے کیا سوال کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ دیکھئے اور سوچئے۔۔۔۔؟؟؟ ایسی آواز جو قاتل کی مذمت نہ کرے، اس کو قابیل کے بیٹوں کی حمایت سمجھو”۔
معصوم نمازی کی پشاور کی ایک مسجد میں ہوئے دھماکے میں شہادت کا بتاکر انسٹاگرام پر بھی اس تصویر کو شیئر کیا گیا ہے۔
Fact Check/Verification
پشاور کی مسجد میں ہوئے دھماکے کے دوران معصوم نمازی کی شہادت کے نام پر وائرل تصویر کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے سب سے پہلے تصویر کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ جہاں ہمیں کچھ بھی اطمینان بخش نتائج نہیں ملے۔
پھر ہم نے تصویر کے ساتھ کچھ کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں ایک انسٹاگرام پر عمر حج قدور نامی انسٹاگرام ہینڈل کا ایک لنک فراہم ہوا۔ جس میں زخمی بچے سے متعلق لکھا تھا کہ 11 جنوری 2020 کو شام کے ادلب شہر میں فضائی حملہ ہوا تھا، جس میں اس بچے کو زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا۔ انسٹاگرام کی پروفائل پر دی گئی جانکاری کے مطابق عمر حج قدور نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک رپورٹر اور فوٹو گرافر ہیں۔
مذکورہ پوسٹ سے پتا چلا کہ جس تصویر کو پشاور کی مسجد میں ہوئے دھماکے میں معصوم نمازی کی شہادت کا بتا کر شیئر کیا جا رہا ہے وہ در اصل پرانی تصویر ہے اور شام کے اُدلب شہر کی ہے۔ مزید سرچ کے دوران ہمیں وائرل تصویر گیٹی امیجز پر بھی ملی۔
گیٹی امیج کی ویب سائٹ پر عمر حج قدور کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ ایک شامی بچہ ہے جو شمالی مغربی شہر ادلب پر ہوئیے فضائی حملے میں زخمی ہوا تھا۔ زخمی بچے کی اس تصویر کو علاج کے وقت فوٹوگرافر نے اپنے کیمرے میں قید کیا تھا۔
سرچ کے دوران ہمیں 11 جنوری 2020 کو شائع شدہ مذکورہ وائرل تصویر سعودی گزٹ نامی انگلش نیوز ویب سائٹ پر بھی ملی۔ جسے شام کے ادلب شہر میں ایئر اسٹرائک کے درمیان ہوئے زخمی بچے کا بتایا گیا ہے۔
Conclusion
نیوز چیکر کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زخمی بچے کی جس تصویر کو پشاور کی مسجد میں ہوئے دھماکے کے دوران معصوم نمازی کا بتاکر شیئر کیا گیا ہے، وہ دراصل 2020 میں شام کے ادلب شہر میں ایئر اسٹرائک کے دوران ہوئے زخمی بچے کی ہے۔ جسے حالیہ پشاور دھماکے سے جوڑ کر شیئر کیا جا رہا ہے۔
Result:False Context/False
Our Sources
Instagram post by omar_hajkadour
Image Published by GettyImages
Report Published by Saudi Gazzete
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.