جمعرات, اپریل 25, 2024
جمعرات, اپریل 25, 2024

ہومFact Checkکیا سلمان رشدی پر حملہ کرنے والا نوجوان ایرانی ہے؟ جانئے سچ

کیا سلمان رشدی پر حملہ کرنے والا نوجوان ایرانی ہے؟ جانئے سچ

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

بھارتی نزاد اور مصنف سلمان رشدی پر حالیہ حملے کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے نوجوان کا تعلق ایران سے ہے۔ ایک ٹویٹر صارف کا دعویٰ ہے کہ “یہ وہ ایرانی نوجوان ہے جس نے سلمان رشدی پر چاقو سے جان لیوا حملہ کیا ہے”۔

کیا سلمان رشدی پر حملہ کرنے والے نوجوان کا تعلق ایران سے ہے؟ وائرل دعوے کا پڑھیں سچ
Courtesy: Twitter @KhurramShirmeen

دراصل 12 اگست 2022 کو بھارتی نژاد برطانوی ادیب سلمان رشدی پر حملہ ہوا۔ یہ حملہ مغربی نیویارک میں پروگرام کے دوران ہوا۔ ٹائمس ناؤ ہندی ویب سائٹ کے مطابق پروگرام میں تقریر کے دوران رشدی پر ایک شخص نے چاقو سے حملہ کیا۔ جس کے بعد پولس نے حملہ آور کو حراست میں لیا۔ بتادوں کہ 1988 میں رشدی کی متنازعہ کتاب “دی سیٹنک ورسز” کے منظر عام پر آنے کے بعد ایران نے ان پر پابندی عائد کی تھی اور وہاں کے مذہبنی رہنما آیت اللہ خمینی نے رشدی کو موت کی سزا دیئے جانے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ اب اسی واقعے سے منسوب کرکے حملہ آور شخص کو ایرانی نوجوان بتاکر پوسٹ شیئر کیے جارہے ہیں۔

ٹویٹر پر ایک صارف نے ہادی مطار کی تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے “اس ایرانی نوجوان نے رشدی ملعون پر چاقو سے پندرہ وار کیے”۔ اس کے علاوہ فیس بک پر رشدی پر حملے والی ویڈیو کے ساتھ کیپشن میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہادی مطار کا تعلق ایران سے ہے۔

Fact Check/ Verification

سلمان رشدی پر حملہ کرنے والے شخص ہادی مطار سے متعلق ہم نے کچھ گوگل کیوڑد سرچ کیے۔ اس دوران ہمیں ایسوسی ایٹ پریس اور این بی سی پر شائع 13 اور 15 اگست کی اپڈیٹ شدہ حملہ آور ہادی مطار سے متعلق رپورٹس ملیں۔ ایسو سی ایٹ پریس نے لکھا ہے کہ ہادی مطار یو ایس میں پیدا ہوا ہے اور اس کے والدین کا تعلق جنوبی لبنان سے تھا، جو یارون سے ہجرت کرکے یو ایس آئے تھے۔

Coutesy: Associated Press

اس کے علاوہ ہمیں این بی سی نیٹورک پر بھی ہادی مطار کے حوالے سے معلومات فراہم ہوئیں۔ جس کے مطابق 24 سالہ ہادی مطار کیلیفورنیا میں پیدا ہوا تھا اور حال ہی میں نیو جرسی میں شفٹ ہوا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہادی 2 اگست 2018 کو لیبنان گیا تھا اور تقریبا 3 ہفتے بعد 29 اگست کو واپس آیا۔ ان رپورٹس میں کہیں بھی ہادی مطار کے ایرانی ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ ہادی کا ایرانی رہنما سے ہمدردی رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔

مزید سرچ کے دوران ہمیں ڈی ڈبلو اردو پر شائع 15 اگست کی ایک رپورٹ ملی، جس کے مطابق ایرانی حکومت نے سلمان رشدی پر ہوئے حملے میں ایران کے ملوث ہونے والے سبھی دعوؤں کی تردید کی ہے۔ ڈی ڈبلئو کے مطابق ان دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے ایرانی وزات خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ رشدی پر کیے گئےحملے میں ایران کسی بھی طرح ملوث نہیں ہے۔ کنعانی نے مزید کہا ہے کہ اس معاملے میں ایران پر کسی بھی قسم کا کوئی الزام عائد کرنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا لیبیا کے لیڈر معمّر قذّافی نے 2009 میں کرونا وائرس کی پیشن گوئی کی تھی؟

Conclusion

اس طرح ہماری تحقیقات میں واضح ہوا کہ بھارتی نژاد اور برطانوی ادیب سلمان رشدی پر حملہ کرنے والے نوجوان کا تعلق ایران سے نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہادی مطار کا تعلق نیوجرسی کے علاقے فیئرویو سے ہے اور ان کے والدین لبنانی نژاد ہیں۔

Result: Partly False

Our Sources

Media Report Published by Associated Press on 13 Aug 2022
Media Report Published by nbcnewyork.com on 15 Aug 2022
Media Report Published by DW Urdu on 15 Aug 2022

نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular