Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.
سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی تصویر وائرل ہو رہی ہے، جس کے سامنے انسان نما چیز جلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ صارفین اس تصویر کو مختلف کیپشن اور سیالکوٹ سانحہ ہیش ٹیگ کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے تصویر کے ساتھ لکھا ہے کہ”جب ‘جنونیت’ نے انسانیت کو جلا دیا”۔
ٹویٹر پر مختلف کیپشن کے ساتھ شیئر کئے گئے پوسٹ کا اسکرین شارٹ درج ذیل میں موجود ہے۔
سیالکوٹ سانحہ میں سری لنکن شہری کے زندہ جلانے کا کیا ہے پورا معاملہ؟
پاکستانی معروف نیوز ویب سائٹ جیو نیوز کے مطابق پاکستان کے سیالکوٹ کے اسپورٹس گارمنٹ کی فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن منیجر پریانتھا کمار کو مذہبی پوسٹر پھاڑنے کے الزام میں سرعام قتل کے بعد زندہ جلا دیا گیا۔ جس کے بعد پاکستان و دیگر ممالک کے سوشل میڈیا صارفین طرح طرح کے پوسٹ شیئر کر رہے ہیں۔
وہیں پاکستان کی پنجاب پولس نے سیالکوٹ سانحہ سے متعلق اپنا ایک پریس رییلیز جاری کیا ہے، جو ہمیں پاکستانی صحافی کامران ساقی سے واہٹس ایپ کے ذریعے فراہم ہوا۔ اس پریس ریلیز کے مطابق یہ واقعہ 3 دسمبر 11 بجکر 28 منٹ پر واقع ہوا تھا، اس معاملے میں اب تک 200 بار چھاپا ماری کی گئی ہے، 118 افراد کو حراست میں لیا گیا، 13 اہم مجرموں کو گرفتار کیا گیا، جبکہ بارہ گھنٹوں میں 160 کیمروں کا ڈی وی آر ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بتادوں کہ اس پریس ریلیز میں سارے ملزمین کی تصویر بھی شائع کی گئیں ہیں۔
Fact Check/Verification
سوشل میڈیا پر ایک خاتون کے سامنے انسان نما چیز کی جلتی تصویر خوب وائرل ہو رہا ہے۔ اس تصویر کو حال کے دنوں میں سری لنکن شہری پرینتھا کمار کے قتل سے جوڑ کر شیئر کیا جا رہا ہے۔ وائرل تصویر کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات شروع کی۔ سب سے پہلے ہم نے تصویر کو ٹویٹر ایڈوانس سرچ کی مدد سے سرچ کیا۔ جہاں ہمیں افشاں لطیف نام کے ٹویٹر ہینڈل پر وائرل تصویر ملی۔ بتادوں کہ اس تصویر کو افشاں لطیف نے 30 جنوری 2021 کو شیئر کیا تھا۔
مذکورہ پوسٹ سے پتا چلا کہ وائرل تصویر پرانی ہے اور جو سیالکوٹ میں سرن لنکن ملازم کے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا وہ تاریخ 3 دسمبر 2021 تھی۔ مزید سرچ کے دوران ہمیں نوشی نامی فیس بک پیج پر ایک پوسٹر ملا جسے 12 اگست2021 کو شیئر کیا گیا تھا۔ جس میں وائرل تصویر بھی شامل تھی۔ تصویر کے ساتھ دی گئی جانکاری کے مطابق کاشانہ کی یتیم بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی اور کائنات نامی لڑکی کے قتل کے خلاف پرائم منسٹر ہاؤس اسلام آباد کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تصویر کو غور سے دیکھنے پر پتا چلتا ہے کہ یہ کسی انسانی جسم کو جلائے جانے کی تصویر نہیں ہے، بلکہ پتلے کو جلانے کی ہے۔
سرچ کے دوران ہمیں پاکستانی نیوز ویب سائٹ سٹی42 پر جولائی 2020 کو شائع شدہ وائرل تصویر کے ساتھ ایک خبر ملی۔ جس میں تصویر میں نظر آرہی خاتون کا نام افشاں لطیف بتایا گیا ہے۔ لیکن تصویر میں جو جل رہا ہے وہ انسانی جسم ہے یا پتلا اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ یہ تصویر سیالکوٹ سانحہ کی نہیں ہے۔
فیس بک ایڈوانس سرچ کے دوران ہمیں افشاں لطیف نامی پیج پر وائرل تصویر کے ساتھ دیگر کئی تصاویر بھی ملیں۔ اسی پیج پر ہمیں ایک ویڈیو بھی ملا۔ جس میں پتلے کو جلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ بتادوں کہ اس پوسٹ کو “پتلا جلاؤ تحریک” کا عنوان دے کر 11 ستمبر کو شیئر کیا گیا ہے۔ وہیں ویڈیو کےکیپشن میں “8 جولائی 2020ء عمران(جھوٹا) خان کے وزراء کے ہاتھوں کاشانہ دارالامان کی یتیم بچیوں کی جنسی درندگی اور قتل و غارتگری پر سراپا احتجاج افشاں لطیف” لکھا ہے۔
Conclusion
اس طرح ہماری تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ وائرل تصویر سیالکوٹ سانحہ کی نہیں ہے، بلکہ کاشانہ میں یتیم بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کے خلاف افشاں لطیف نامی خاتون کے کئے گئے احتجاج کی ہے، جہاں انہوں نے پتلا جلایا تھا۔
Result: False
Our Sources
Twitter: (https://twitter.com/AfshanLatif3/status/1355340264282468355)
Facebook: (https://www.facebook.com/search/top?q=afsha%20latif%20kashana)
City42:(https://www.city42.tv/09-Jul-2020/49503)
Facebook: (https://www.facebook.com/afshanlatifofficial/videos/822847465059908)
نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔
9999499044
Authors
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.