جمعہ, نومبر 22, 2024
جمعہ, نومبر 22, 2024

HomeFact Checkکابل اور انگلینڈ دھماکے کی تصاویر کو فرضی دعوے کے ساتھ کیا...

کابل اور انگلینڈ دھماکے کی تصاویر کو فرضی دعوے کے ساتھ کیا گیا شیئر!پڑھیئے وائرل دعوے کا سچ

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

سوشل میڈیا پر دھماکے کی تصویر کو راجستھان کا بتا کر شیئر کیا گیا ہے۔ صارف نے کیپشن میں لکھا ہے کہ “بھارتی خفیہ ایٹمی یورینیم ریکٹر پلانٹ جو کہ راجھستان کے علاقے پوکھران میں واقع ہے۔ کسی نے اس کے یورینیم افزودہ کرنے کے 3 کنووں میں ٹائم بم لگا دیئے۔

Verification

ان دنوں سوشل میڈیا پر تین تصاویر وائرل ہورہی ہے۔دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ہندوستانی خفیہ ایٹمی یورینیم ریکٹر پلانٹد میں ھماکہ ہوگیا ہے ہے۔یہ پلانٹ راجھستان کے پوکھران علاقے میں واقع ہے۔کسی نے اس کے یورینیم افزودہ کرنے کے 3 کنووں میں ٹائم بم لگا دیا تھا۔ 2 بم پکڑے جانے پر بھارتی میڈیاانڈیا ٹائمز خاص پروگرام نشر کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ تبھی باقی کے13 ٹائم بم پھٹ گئے۔انڈین فوج کے انتہائی اعلیٰ عہدیدار میجر جرنیل رام داس کالیا،کرنل وجے کمار یادو ،کرنل ڈاکٹر اشانت کمار پلویر اور میجر ہرچرن سنگھ ڈھلوں کے ساتھ بھارتی چینل انڈیا ٹائمز کا اینکر پرسن، کیمرہ میں سپاٹ لائٹ بوائے ڈی ایس این انجینئیر ڈرائیور اور لگ بھگ 60 کے قریب ہندوستانی سینک بھی جل کر خاکستر ہو گئیں۔وائرل پوسٹ کے آرکائیو لنک درج ذیل ہے۔بقیہ وائرل تصاویر کی حقائق بھی تفصیل کے ساتھ نیچے موجود ہے۔

آئی ایس پی آر :سائبربلیٹن پاکستان نامی پیچ پر دھماکے کی تصویر کو مذکورہ دعوے کے ساتھ ۸جولائی کو شیئر کیا گیا تھا۔آرکائیو لنک۔

پاک آرمی پی اے ایف ایس ایس جی آئی ایس آئی نامی پیج پر بھی مذکورہ دعوے کے ساتھ شیئر کیا ہے۔آرکائی لنک۔

ٹویٹر پر نعیم خان نامی یوزر نے مذکورہ تصاوین کے بارے میں پوچھ رہا ہے کہ کوئی اس حادثے کے بارے میں جانتا ہے؟آرکائیو لنک۔

تھریڈ ڑیڈر ایپ نامی اردو ویب سائٹ نے بھی وائرل تصاویر کو راجستھان کے پوکھران کا بتا کر خبر شائع کی ہے۔آرکائیو لنک۔

ٹویٹر پر آتھرا سپاہی نامی یوزر نے بھی وائرل تصاویر کو ہندوستان کے راجستھان کا بتاکر شیئر کیا ہے۔آرکائیو لنک۔

Fact Check

وائرل تصاویر کی کیا ہے سچائی؟

وائرل پوسٹ کو پڑھنے کے بعد ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات شروع کی۔سب سے پہلے ہم نے پہلی تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا۔جہاں ہمیں اسکرین پر وائرل تصویر کے حوالے سے دوہزار سترہ کی کئی خبریں ملیں۔العرابیہ، انڈیا،این ڈی ٹی وی اور زی نیوز کے مطابق کابل میں ہندوستانی سفارت خانے کے قریب زوردار دھماکا ہوا تھا۔جس میں 80 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔جبکہ 350 زخمی ہوئے تھے۔اس حادثے میں ہندوستانی سفارت خانے کے عملہ کو کوئی نقصان نہیں ہواتھا۔

مذکورہ خبروں سے واضح ہوچکا کہ وائرل ہورہی ایک تصویر ہندستانے کے راجستھان کی نہیں ہے۔بلکہ افغانستان کے کابل دھماکے کا ہے۔اب ہم نے دوسری اور تیسری تصویر کو جب ریورس امیج سرچ کیا تو پتا چلا یہ دونوں تصاویر بھی راجستھان کے پوکھران کی نہیں ہے۔سرچ کے دوران ہمیں بی بی سی انگلش،دی گارجئن اور دی ٹیلی گراف کے نیوز ویب سائٹ پر وائرل تصاویر والی خبریں ملیں۔جس کے مطابق دونوں تصاویر انگلینڈ کے کینٹ کے کلف کی ہے۔جہاں دوہزار پندرہ میں برطانوی آرمی نے بم کو ختم کر دیا تھا۔

درجہ ذیل میں تینوں تصاویر کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔

دھماکے کے حوالے سے پہلے بھی نیوزچیکر کی ٹیم فیکٹ چیک کر چکی ہے۔

Conclusion

نیوزچیکر کی تحقیقات میں ثابت ہوتا ہے کہ وائرل ہورہی تینوں تصاویر مختلف ممالک کی ہے۔پہلی تصویر دوہزار سترہ میں افغانستان کے کابل دھماکے کی ہے۔جبکہ دوسری اور تیسری برطانیہ کی ہے۔تینوں تصاویر کا ہندوستان کے راجستھان کے پوکھران سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

Our Sources

Alarabiya:https://farsi.alarabiya.net/fa/afghanistan/2017/05/31/%D8%AD%D9%85%D9%84%D9%87-:Alarabiya%D

India.com:https://www.india.com/news/india/kabul-blast-india-condemns-heinous-attack-during-ramzan-says-it-reflects-diabolical-nature-of-perpetrators-2187754/

Theguardian:https://www.theguardian.com/uk-news/2015/mar/25/bermondsey-bomb-destroyed-controlled-explosion

Ndtv:https://khabar.ndtv.com/news/world/explosion-near-indian-embassy-in-kabul-all-officials-safe-sources-1705996

BBC:https://www.bbc.com/news/uk-england-kent-32051553

Result: Misleading

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویزکے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔۔

 9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular