جمعرات, دسمبر 19, 2024
جمعرات, دسمبر 19, 2024

HomeFact Checkطالبان نے طلوع نیوز کے صحافی زیار یاد کا نہیں کیا قتل،...

طالبان نے طلوع نیوز کے صحافی زیار یاد کا نہیں کیا قتل، گمراہ کن دعوی ہوا وائرل

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

اردو نیوز ویب سائٹ پر دعوی کیا جا رہا ہے کہ طلوع نیوز کے صحافی زیار یاد کو کابل ایئر پورٹ پر طالبان نے قتل کر دیا ہے۔

طلوع نیوز کے صحافی کے قتل کے حوالے شائع خبر کا اسکرین شارٹ
طلوع نیوز کے صحافی کے حوالے شائع خبر کا اسکرین شارٹ

 افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد  کئی صحافیوں نے رپورٹنگ کی آزادی کو لے کر اپنے اندیشے کا اظہار کیا ہے۔ ایک طرف جہاں طالبان نئے نظریئے کے ساتھ ملک پر حکومت کا دعویٰ کر رہا ہے تو وہیں ڈی ڈبلیو میں کام کر رہے صحافی کے رشتے دار کا قتل اور دیگر صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ اور بدسلوکی کا واقعہ طالبان کے اس دعوے کو غلط ثابت کرتا ہے۔ یونائٹیڈ نیشن سمیت کئی بین الاقوامی تنظیموں نے طالبان کی جانب سے ہورہے ظلم ستم کی مذمت کی ہے۔

افغانستا پر طالبانی قبضے کے بعد سے ہی طالبان کی ظلم ستم کے تمام دعوے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ وہیں سوشل میڈیا پر ان دنوں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے طالبانی نے طلوع نیوز کے صحافی زیار خان یاد کو قتل کر دیا ہے۔ اس دعوے کو اردو نیوز کے علاوہ ہندی نیوز اور سوشل میڈیا یوزرس نے بھی خوب شیئر کیا ہے۔

طلوع نیوز کے رپورٹر کے حوالے فرضی نیوز کا آرکائیو لنک یہاں اور یہاں دیکھیں۔

Fact Check/Verification

طالبانیوں کے ہاتھو طلوع نیوز کے صحافی زیار یاد کے قتل والے دعوے کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات شروع کی۔ سب سے پہلے ہم نے ٹویٹر کے آفیشل ہینڈل کو کھنگالا، جہاں ہمیں 26 اگست 2021 کو شیئر کیا ایک ٹویٹ ملا۔ جس کے مطابق  طالبانیوں  نے طلوع نیوز کے صحافی اور کیمرہ مین کو مارا پیٹا تھا۔

پھر ہم نے اس سلسلے میں مزدی کیورڈ سرچ کیا۔ جہاں ہمیں طلوع نیوز پر زیار یاد افزود کے ساتھ مارپیٹ کے حوالے سے طلوع نیوز کا فارسی میں ایک خبر ملی۔ جس میں صاف واضح کیا گیا ہے کہ زیار یاد افزود زندہ ہے۔ زیار یاد اور ان کے کیمرہ مین کو  کابل کے حاجی یعقوب چوراہے پر رپورٹنگ کے دوران انہیں روکا تھا اور ان کا کیمرہ اور موبائل چھین لیا۔

زیار نے جب اپنا سامان طالبانی سے مانگا تو انہیں ہتھیار سے مار پیٹا۔ لیکن زیار کی قتل کی خبر فرضی ہے۔ وہیں سرچ کے دوران طلوع نیوز کے یوٹیوب چینل پر ہمیں زیار کا انٹر ویو ملا۔ جس میں خود کہہ فارسی زبان میں کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ طالبانیوں مار پیٹ کی ہے۔

ان سبھی تحقیقات کے باوجود ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہہ طلوع نیوز کے صحافی زیار یاد افزود کے قتل کا دعویٰ کر نے کے پیچھے کیا وجہ ہے تو ہم نے گزشتہ دنوں طلوع نیوز کی جانب سے شیئر کئے گئے ٹویٹ کو کھنگالنا شروع کیا۔ اس دوران ہمیں 26 اگست 2021 کو دس بجکر 45 منٹ پر شیئر کیا گیا ایک ٹویٹ ملا۔ جس میں فارسی زبان میں “لت و کوب یک خبر نگار طلوع نیوز از طالبان در کابل” لکھا ہوا ملا۔

جس کا گوگل ٹرانسلیٹ کر نے پر”ٹولو نیوز رپورٹر کلڈ بائی طالبان ان کابل” لکھا ہوا نظر آیا۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ گوگل بابا کی ایک غلطی نے زندہ آدمی کو مار دیا اور اسی غلطی کو کئی بھارتیہ میڈیا نے اپنی خبر میں شامل کر دیا۔ بتادوں کہ گوگل نے لت و کوب کا ترجمہ جان سے مارنا کیا ہے۔ جبکہ اس کا ترجمہ آپس میں نوک جھوک کرنا ہوتا ہے۔

 ہمیں طلوع نیوز رپورٹر زیار خان یاد کا ٹویٹ ملا۔ جس میں وہ خود واضح کیا ہے کہ ان کے ساتھ طالبانیوں نے زد و کوب کیا تھا ۔ ان کے قتل کی خبر فرضی ہے۔

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں  ثابت ہوتا ہے کہ طالبان نے طلوع نیوز کے صحافی زیار خان یاد کا قتل نہیں کیا ، بلکہ ان کو اور ان کے کیمرہ مین پر طالبانیوں ضرب‌و شتم کیا تھا۔اپنے اس خبر سے قارئین کو  یہ  بھی بتانا چاہتے ہیں کہ گوگل کے ذریعے کیا گیا ترجمہ  نئی ٹیکنالوجی کے تحت کی جاتی ہے، اس لئے کئی بار گوگل ٹرانسلیٹ غلط بھی ہو سکتا ہے۔


Result: Misleading


Our Sources

Tweet shared by TOLOnews

Tweet shared by Ziar Khan Yaad

YouTube


نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔

9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular