ہفتہ, جولائی 27, 2024
ہفتہ, جولائی 27, 2024

ہومFact CheckFact Check: ریل جہاد کے نام پر وائرل ہوئی امر اُجالا اخبار...

Fact Check: ریل جہاد کے نام پر وائرل ہوئی امر اُجالا اخبار کی یہ کٹنگ ترمیم شدہ ہے

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Claim
ریل جہاد، ٹریک کی فش پلیٹ کھولتے ہوئے پکڑا گیا مسلمان نوجوان۔
Fact
یہ واقعہ 2018 میں پیش آیا تھا۔ امر اُجالا اخبار کی کٹنگ کو ایڈٹ کرکے گمراہ کن دعوے کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔

ہندی اخبار امر اُجالا کی ایک کٹنگ سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے۔ جس کی سرخی میں لکھا ہے “ریل جہاد: پٹری کی فش پلیٹ کھولتے پکڑا گیا مسلم نوجوان”۔ اس پیپر کٹنگ میں موجود واقعہ کو حال ہی میں پیش آنے والے ٹرین حادثوں کے بعد شیئر کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران ملک بھر میں ریل کے دو بڑے حادثے ہو چکے ہیں۔ 18 جولائی کو اتر پردیش کے گونڈا میں چنڈی گڑھ-ڈبرو گڑھ ایکسپریس کے چھ ڈبے پٹری سے اتر گئے تھے۔ اس حادثے میں دو افراد کی اموات واقع ہوئی تھی جبکہ 30 سے ​​زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ 17 جون کو مغربی بنگال کے رنگپانی ریلوے اسٹیشن پرسیالدہ-اگرتلہ کنچن جنگ ایکسپریس ایک مال گاڑی سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں تقریباً 10 لوگوں کی اموات ہوئی تھی۔

وائرل کٹنگ مبینہ طور پر امر اُجالا کے مراد نگر ایڈیشن کی ہے، جس کی سرخی میں لکھا ہے”ریل جہاد: پٹری کی فش پلیٹ کھولتے پکڑا گیا مسلم نوجوان “۔ اس کے علاوہ ذیلی سرخی میں لکھا ہے “بے پٹری ہونے سے بچی دہرا دون ایکسپریس، ملزم فرقان علی گرفتار”۔ اس کٹنگ کو حالیہ دنوں کا بتاکر شیئر کیا جا رہا ہے۔

ریل جہاد سے جوڑ کر شیئر کی گئی امر اُجالا اخبار کی کٹنگ ترمیم شدہ ہے۔
Courtesy: X/Sudanshutrivedi

Fact Check/Verification

وائرل دعوے کی تصدیق کے لئے نیوز چیکر نے سب سے پہلے کٹنگ میں موجود معلومات کی مدد سے خبروں کی تلاش کی۔ اس دوران ہمیں آج تک نیوز ویب سائٹ پر 20 جنوری 2018 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ موصول ہوئی۔

Courtesy: AAJ TAK

آج تک کی رپورٹ کے مطابق 19 جنوری 2018 کو غازی آباد کے مراد نگر کی دیانند کالونی کے رہنے والے تین نوجوان شیو، وجے اور سچن قریبی ریلوے ٹریک پر گئے تو انہیں صبح 8 بجے پول نمبر 38-19 پر ایک نوجوان بیٹھا ہوا نظر آیا۔ مذکورہ نوجوان نے نو عمر سے کال کرنے کے لئے موبائل فون مانگا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کے پاس فون موجود نہیں ہے۔ اسی دوران سچن نامی نوجوان کی نظر ریلوے ٹریک پر پڑی تو دیکھا کہ پٹریوں کو جوڑنے والی فش پلیٹ اور نٹ بولٹ الگ الگ پڑے ہیں۔ جب ان لوگوں نے مذکورہ نوجوان سے اس بارے میں پوچھا تو وہ بھاگنے لگا۔

بعد میں تینوں لڑکوں نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور آس پاس کے لوگوں کی مدد سے اسے ریلوے سٹیشن کے ماسٹر کو سونپ دیا۔ گرفتار ملزم کی شناخت بلند شہر کے 30 سالہ فرقان کے طور پر ہوئی تھی۔ لڑکوں کی عقلمندی کی وجہ سے بڑا حادثہ ٹل گیا کیونکہ دہرادون ایکسپریس اسی ٹریک سے گزرنے والی تھی لیکن بعد میں ٹرین کو مراد نگر اسٹیشن پر کافی دیر تک روکا گیا تھا۔

اپنی تحقیقات میں ہم نے امر اُجالا کے ای پیپر میں مذکورہ خبر کو بھی تلاشا، تب ہمیں یہ خبر 20 جنوری 2018 کو غازی آباد ایڈیشن میں شائع شدہ ملی۔

حالانکہ ہمیں پتا چلا کہ حقیقت میں امر اُجالا نے مذکورہ بالا سرخی اور ذیلی سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع نہیں کی تھی، جو کہ وائرل ہونے والی کٹنگ میں موجود ہے، بلکہ حقیقت میں امر اُجالا نے سرخی کے طور پر “بچوں کی سوجھ بوجھ سے بچا ریل حادثہ” اور ذیلی سرخی میں لکھا تھا، “بلندشہر کے یُووَک نے فش کی پلیٹ کھول کر جھاڑیوں میں پھینکی، ملزم حراست میں” لکھا تھا۔

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں ملنے والے شواہد سے یہ ثابت ہوا کہ یہ واقعہ تقریباً چھ سال پرانا ہے اور امر اُجالا نے وائرل کٹنگ میں موجود سرخی والی خبر شائع نہیں کی تھی۔

Result: Altered Photo

Our Sources
Article Published by AAJ TAK on 20th Jan 2018
Epaper by Amar Ujala on 20th Jan 2018

(اس آرٹیکل کو ہندی فیکٹ چیک سے ترجمہ کیا گیا ہے۔جسے رنجے کمار نے 24 جولائی کو شائع کیا تھا)


نوٹ: کسی بھی مشتبہ خبر کی تحقیق، ترمیم یا دیگر تجاویز کے لئے ہمیں واٹس ایپ نمبر 9999499044 پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے واٹس ایپ چینل کو بھی فالو کریں۔

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Most Popular