Sunday, March 16, 2025
اردو

Crime

خون میں ڈوبی اس قلم کی حقیقت کیا ہے؟ جانئے رپورٹ میں

banner_image

خون میں ڈوبی قلم کی ایک تصویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کرکے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ قلم حال ہی میں کابل افغانستان میں ہونے والے دھماکے کے دوران خون میں ڈوب گئی۔ ایک ٹویٹر صارف کا دعویٰ ہے کہ یہ خون میں ڈوبی قلم کی تصویر کابل کے ایک تعلیمی ادارے میں ہونے والے حالیہ دھماکے کی ہے۔ اس کے علاوہ متعدد صارفین اس تصویر کو الگ الگ کیپشن اور دیگر تصویروں کے ساتھ بھی شیئر کررہے ہیں۔

خون میں ڈوبی قلم کی یہ تصوی حالیہ کابل دھماکے کی نہیں ہے
Courtesy: Twitter @tonyar0324
اس تصویر کو بلیک اینڈ وائٹ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ اس میں خون سے ڈوبی ہوئی قلم اور زمیں نظر آرہی ہے۔
Courtesy: Twitter @Farmana01806284
اس تصویر کو بلیک اینڈ وائٹ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ اس میں خون سے ڈوبی ہوئی قلم اور زمیں نظر آرہی ہے۔
Courtesy: FB/ahsan.ghamzada.3
اس تصویر کو بلیک اینڈ وائٹ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ اس میں خون سے ڈوبی ہوئی قلم اور زمیں نظر آرہی ہے۔

Fact Check/Verification

نیوز چیکر نے خون میں ڈوبی قلم کی تصویر کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ اس دوران کریمہ بلوچ نامی ٹویٹر ہینڈل پر شیئر شدہ 18 اگست 2020 کی ایک پوسٹ ملی۔ جس میں اسی تصویر کے ساتھ دیگر تصاویر بھی تھیں۔ پوسٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق یہ تصویر بلوچستان کے رہنے والے حیات نامی ایک طالب علم کی ہے۔ جو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا۔

Courtesy: Twitter @Farmana01806284
اس تصویر کو بلیک اینڈ وائٹ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ اس میں خون سے ڈوبی ہوئی قلم اور زمیں نظر آرہی ہے۔

مذکورہ پوسٹ سے پتہ چلا کہ خون میں ڈوبی قلم کی تصویر پرانی ہے۔ پھر ہم نے تصویر کے ساتھ، ‘حیات کا پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل’ کیورڈ سرچ کیا۔ اس دوران ہمیں دی بلوچستان پوسٹ اور ڈیلی سنگر نامی اردو نیوز ویب سائٹ پر اسی تصویر کے ساتھ شائع 18 اگست 2020 کے مضمون ملے۔ جس میں اس تصویر کو کیچ، مکران کے مرکزی شہر تربت سے تعلق رکھنے والے حیات بلوچ کے خون میں ڈوبی قلم کا بتایا گیا ہے۔

Courtesy: The Balochistan post/
اس تصویر کو بلیک اینڈ وائٹ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ اس میں خون سے ڈوبی ہوئی قلم اور زمیں نظر آرہی ہے۔

اس کے علاوہ ہمیں یہی تصویر نیوز انٹر وینشن نامی ویب سائٹ پر بھی ملی۔ اس میں بھی اس تصویر کو بلوچستان کے رہنے والے حیات بلوچ کے خون میں ڈوبی قلم کا بتایا گیا ہے۔ جو پاکستانی فوج کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ مذکورہ رپورٹس اور ٹویٹ سے واضح ہوا کہ تصویر انٹرنیٹ پر 2020 سے موجود ہے، جبکہ کابل کے تعلیمی ادارے میں دھماکہ 30 ستمبر 2022 کو ہوا تھا۔ جس میں 19 طلبہ کی موت ہوگئی تھی، اور 30 سے زائد زخمی ہوئے۔

Courtesy:newsintervention.com
اس تصویر کو بلیک اینڈ وائٹ اس لئے کیا گیا ہے کیونکہ اس میں خون سے ڈوبی ہوئی قلم اور زمیں نظر آرہی ہے۔

Conclusion

اس طرح نیوز چیکر کی تحقیقات سے واضع ہوا کہ خون میں ڈوبی قلم کی اس وائرل تصویر کا تعلق حالیہ کابل دھماکے سے نہیں ہے، بلکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حیات نامی ایک طالب علم کی ہے، جو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا اور یہ تصویر انٹر نیٹ پر 2020 سے موجود ہے۔

Result: False

Our Sources

Tweet by @KarimaBloch on 18 Aug 2020
Media Repot published by The Balochistan post on 18 Aug 2020
Media Repot published by dailysangar on 18 Aug 2020
Media Repot published by newsintervention.com on 14 Aug 2020

کسی بھی مشکوک خبر کی تحقیقات، تصحیح یا دیگر تجاویز کے لیے ہمیں واٹس ایپ کریں: 9999499044 یا ای میل: checkthis@newschecker.in

image
اگر آپ کسی دعوے کی جانچ کرنا چاہتے ہیں، رائے دینا چاہتے ہیں یا شکایت درج کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں واٹس ایپ کریں +91-9999499044 یا ہمیں ای میل کریں checkthis@newschecker.in​. آپ بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں اور فارم بھر سکتے ہیں۔
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
Newchecker footer logo
About Us

Newchecker.in is an independent fact-checking initiative of NC Media Networks Pvt. Ltd. We welcome our readers to send us claims to fact check. If you believe a story or statement deserves a fact check, or an error has been made with a published fact check

Contact Us: checkthis@newschecker.in

17,450

Fact checks done

FOLLOW US
imageimageimageimageimageimageimage
cookie

ہماری ویب سائٹ کوکیز استعمال کرتی ہے

ہم کوکیز اور مماثل تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مواد کو شخصی بنایا جا سکے، اشتہار کو ترتیب دی جا سکے، اور بہتر تجربہ فراہم کیا جا سکے۔ 'ٹھیک ہے' پر کلک کرکے یا کوکی ترجیحات میں ایک اختیار کو آن کرنے سے، آپ اس پر متفق ہوتے ہیں، جیسا کہ ہماری کوکی پالیسی میں وضاحت کے طور پر ہوا ہے۔