پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر فرضی خبریں خوب شیئر کی جا رہی ہیں۔ ان دنوں صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین و ایم پی حیدرآباد بیرسٹر اسدالدین اویسی کی ویڈیو اور اس کے دو اسکرین شارٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔ ویڈیو میں اویسی اسمبلی میں اپنے ہاتھ آنکھوں پر پھیرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وہیں پہلی تصویر میں وہ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھے ہوئے ہیں اور دوسرے ہاتھ میں چشمہ لئے نظر آرہے ہیں، وہیں دوسری تصویر وہ ایک ہاتھ میں جشمہ اور دوسرے ہاتھ کی دو انگلیوں کو ایک آنکھ پر رکھے ہوئے ہیں۔
ویڈیو سے متعلق صارفین کا دعویٰ ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں وقف بل پاس ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں اپنے بے بسی پر رو رہے ہیں۔


آرکائیو لنک یہاں اور یہاں دیکھیں۔
Fact Check/Verification
وائرل کلپ کا بغور تجزیہ کیا تو ہم نے پایا کہ اسدالدین اویسی نیلے رنگ کے لباس میں ملبوس ہیں۔ تاہم انہوں نے وقف ترمیمی بل پر حالیہ پارلیمانی اجلاس کے دوران سفید لباس زیب تن کیا تھا۔

ہمیں وائرل ویڈیو میں ” اے آئی ایم آئی ایم آر آر ڈسٹرکٹ” کا واٹر مارک نظر آیا۔ یہاں ایک سراغ ملا جس کے بعد ہم نے اس نام کو گوگل پر تلاشا۔ جہاں ہمیں اس نام کا انسٹاگرام ہینڈل موصول ہوا۔ تلاش کرنے پر ہمیں یہی ویڈیو 7 اگست 2024 کو اپلوڈ شدہ ملی۔ جس کے ساتھ فراہم کردہ معلومات کے مطابق بیرسٹر اسد الدین اویسی کی یہ ویڈیو(لوک سبھا) پارلیمنٹ ہال کی ہے۔

مزید تلاش کرنے پر اسی کلپ کا ایک طویل ورژن 7 اگست 2024 کو اڈیشہ لائیو نامی یوٹیوب چینل پر موصول ہوا، جو کہ 7 گھنٹہ 41 منٹ 23 سکینڈ پر مشتمل ہے۔ لوک سبھا سیشن کی لائیو سٹریمنگ کی اس ویڈیو کے تقریباً 4 گھنٹہ 46 منٹ 55 سکینڈ پر ہوبہو مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ لائیو سٹریم میں صاف نظر آرہا ہے کہ اویسی محض آنکھیں رگڑ رہے ہیں، رو نہیں رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وقف بل کی منظوری کے قبل کی ہے مدرسے پر ہوئی کاروائی کی یہ ویڈیو
Conclusion
لہٰذا آن لائن ملے شواہد سے یہ ثابت ہوا کہ وقف ترمیمی بل، 2025 سے متعلق اسد الدین اویسی کے پارلیمنٹ میں رونے کا بتاکر شیئر کی جا رہی ویڈیو پرانی ہے اور ویڈیو کے ساتھ کیا گیا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
Sources
Instagram Post By @aimim_rr_district, Dated August 7, 2024
YouTube Video By OdishaLIVE, Dated August 7, 2024
اس آرٹیکل کو انگلش سے ترجمہ کیا گیا ہے، جسے وسودھا بیری نے لکھا ہے۔