بدھ, اپریل 24, 2024
بدھ, اپریل 24, 2024

ہومFact Checkجاپان کی نئی ٹیکنالوجی والی ٹرین کا نہیں ہے یہ وائرل ویڈیو

جاپان کی نئی ٹیکنالوجی والی ٹرین کا نہیں ہے یہ وائرل ویڈیو

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جاپان کی نئی ٹیکنالوجی سے منسوب کرکے ٹرینوں کا ایک ویڈیو شیئر کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو میں ٹرینیں کبھی ایک ٹرین کے اوپر سے تو کبھی نیچے سے تو کبھی ٹرین کے درمیان سے گذرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ صارف نے ویڈیو کے ساتھ عربی کیپشن لکھا ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ “جاپان کی اس ٹرین میں بہت ہی ایڈوانس ٹیکنالوجی موجود ہے”۔

جاپان کی نئی ٹیکنالوجی والی ٹرین کا نہیں ہے یہ وائرل ویڈیو
Courtesy: Fb/ Shaima Al-Assar

ان دنوں سوشل میڈیا پر 3 منٹ 44 سیکینڈ کا تین الگ الگ منظروں پر مشتمل ایک ویڈیو شیئر کیا جا رہا ہے۔ جس کے تین مختلف حصوں میں ٹرینیں الگ الگ طریقے سے گذرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ویڈیو کے پہلے حصے میں ایک ٹرین دوسری ٹرین کے اوپر سے گذرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ دوسرے حصے میں زمین کے نیچے سے اور تیسرے حصے میں ایک ٹرین دوسری ٹرین کے درمیان سے گذرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ صارف نے عربی اور انگلش کیپشن کے ساتھ لکھا ہے کہ “جاپان کی ان ٹرینوں میں ایڈوانس ٹیکنالوجی موجود ہے”۔ مذکورہ کیپشن کے ساتھ ویڈیو کو یوٹیوب پر بھی شیئر کیا گیا ہے۔

Fact Check/Verification

جاپان کی نئی ٹیکنالوجی سے منسوب وائرل ٹرین ویڈیو کی سچائی جاننے کے لئے ہم نے اپنی ابتدائی تحقیقات کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے ویڈیو کو انوڈ کی مدد سے کیفریم میں تقسیم کیا اور ان میں سے کچھ فریم کو گوگل ریورس امیج سرچ کیا۔ لیکن کچھ بھی اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔

پھر ہم نے فیس بک ایڈوانس سرچ کی مدد سے کیورڈ سرچ کیا۔ جہاں ہمیں ہونی گیمنگ نامی فیس بک پیج پر وائرل ویڈیو ملا۔ ویڈیو کے ساتھ انگلش کیپشن لکھا ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ “خیالی دنیا اور گذرتی ہوئی ٹرین”۔ ہم نے جب ہونی گیمنگ کے پروفائل کا تجزیہ کیا تو پتا چلا کہ اس پروفائل پر گیمنگ ویڈیوز شیئر کئے جاتے ہیں۔

ویڈیو کو ہم نے غور سے دیکھا تو نچلے حصے میں’ڈفا ریل فینس آئی ڈی’ لکھا ہوا نظر آیا۔ پھر ہم نے اس کیورڈ کو یوٹیوب پر سرچ کیا تو ہمیں ڈفا ٹرین فینس آئی ڈی نام کا ایک یوٹیوب چینل ملا۔ جہاں ہمیں وائرل ویڈیو کا ایک نسخہ ملا، جو 4 منٹ 28 سیکینڈ پر مشتمل تھا۔ ویڈیو کے ساتھ دی گئی جانکاری کے مطابق ٹرینوں کا یہ ویڈیو محض خیالی ہے، اصلیت پر مبنی نہیں ہے۔

Courtesy: YouTube/Daffa Railfans ID

ہم نے یوٹیوب چینل کو کھنگالا تو پتا چلا کہ اس چینل پر مذکورہ ویڈیو سے ملتے جلتے متعدد ویڈیو موجود تھے، پھر ہم نے اباؤٹ سیکشن پر نظر دوڑائی تو وہاں میں انڈونیشین زبان میں جانکاری دی گئی تھی، جس کا ترجمہ کرنے پر پتا چلا کہ یہ چینل ایک ٹرین سییملیٹر گیمنگ چینل ہے، اس چینل پر سیملیشن کے ذریعے تیار کئے گئے ویڈیوز اپلوڈ کئے جاتے ہیں۔

ہم نے جب گوگل پر یہ سرچ کیا کہ کیا واقعی جاپان کی نئی ٹیکنالوجی ایسی ہے جس میں ٹرینیں ایک دوسرے کے درمیان سے یا ایک دوسرے کے اوپر سے گزرتی ہیں؟ تو ہمیں کوئی بھی ایسی رپورٹ نہیں ملی، جس میں مذکورہ وائرل ویڈیو سے متعلق جانکاری دی گئی ہو۔ ہم نے جاپان آفیشل ویب سائٹ پر بھی وائرل ویڈیو سے متعلق کیورڈ سرچ کیا، لیکن وہاں بھی ہمیں کچھ نہیں ملا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا واقعی جاپان کی نئی الیکٹرک ٹرین 4800 کلومیٹر فی گھنٹہ طے کرتی ہے سفر؟

Conclusion

نیوز چیکر کی تحقیقات میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ وائرل ویڈیو انیمیشن کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔ اس ویڈیو کا ٹرینوں کے لئے تیار جاپان کی نئی ٹیکنالوجی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


Result: False

Our Sources

Facebook:https://www.facebook.com/huniigamings/videos/1180709952455035

YouTube:https://youtu.be/jVZhhdYk-vI

Japan.go.jp:https://www.japan.go.jp/

نوٹ:کسی بھی مشتبہ خبرکی تحقیق،ترمیم یا دیگرتجاویز کے لئے ہمیں نیچے دئیے گئے واہٹس ایپ نمبر پر آپ اپنی رائے ارسال کر سکتےہیں۔


9999499044

Authors

Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

Mohammed Zakariya
Mohammed Zakariya
Zakariya has an experience of working for Magazines, Newspapers and News Portals. Before joining Newschecker, he was working with Network18’s Urdu channel. Zakariya completed his post-graduation in Mass Communication & Journalism from Lucknow University.

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Most Popular